مستقبل کا سیاسی منظر کچھ ایسا ہوگا
میرے حلقہ احباب میں سے ایک رفیق دوست کا کالم نظرسے گزرا جس میں انہوں نے دکھ کا اظہار کیا کہ پانامہ کے فیصلے سے تمام تجزیات کی موت ہو گئی ہے۔ بہت پیار کے ساتھ عرض ہے کہ موت تمام تجزیات کی ہے یانواز شریف سے نفرت کے ان جذبات کی جو کہ خان صاحب نے پیدا کر دئیے کیونکہ موت تو ان تجزیات کی ہوئی جو ان جذبات کے تابع تھے۔ میرا خیال ہے کہ میرے دوست نے خاکسار کی تحریر پڑھنے کی زحمت نہیں کی جس کا عنوان تھا " مولے نو مولا نہ مارے تے مولا نہیں مردا" یہ خاکسار اس تحریر میں کہہ چکا تھا کہ نواز شریف کو کچھ نہیں کہا جا سکتا ،ساتھ ہی یہ بھی عرض کی تھی کہ کس ادارے کو کہا جائے گا ؟نیب یا ایف آئی اے کو۔ پھر اس خاکسار نے یہ عرض کی تھی کہ نواز شریف کا اصل نقصان مریم بی بی کا کسی طور پر بھی کم یا زیادہ قصور وار ہونا ہو گا اور یہ بھی عرض کی تھی کہ ڈھول نواز شریف کے گلے میں ہوگا اور چھڑی عمران خان کے پاس۔ اور جناب میری تو اتنی حیثیت نہیں محترم جناب حبیب اکرم صاحب بھی انہی باتوں کا اظہار کر چکے تھے ،پھرجناب حامد میر صاحب نے بھی انہی خدشات کا اظہار قبل از وقت کیا تھا اور تو اور میرے عزیز دوست نے اپنے استاد محترم جناب مجیب الرحمان شامی صاحب کو بھی ان کے پروگرام "نقطہ نظر" میں نہیں سنا اور نہ ہی 19 اپریل کو ہونے والی براہ راست ٹرانسمیشن میں انہوں نے مجیب الرحمان شامی صاحب کو سنا ۔شاید انہوں نے صرف چند ایسے تجزیہ کاروں کو سنا اور ایسے چینلز کے پروگرام دیکھنے پر ہی اکتفا کیا تھا جو اپنے تجزیہ کے اور پروگرام کے آخر تک تخت یا تختہ کر چُکے ہوتے ہیں، اور عقل و جذبات کے تمام گھوڑے ان کی دکھائی ہوئی یا یوں کہہ لیں کہ عمران خان صاحب کی دکھائی ہوئی سمت میں دوڑا دئیے اور دوسری سمت کو بالکل نظر انداز کر دیا ۔ خیر یہ ایک باریک سا اختلاف تھا عزیز دوست کے سرنامہ کلام سے جس کا اظہار کر دیا خیر اب چلتے ہیں بقیہ تحریر کی جانب۔
پانامہ کے فیصلے کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کی ایک اور طبل جنگ ڈان لیکس کے حوالے سے بج اٹھا۔ رپورٹ وزیراعظم ہاؤس کو پیش کی گئی پھر وزیراعظم ہاوس کی طرف سے ایک مراسلہ جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں 4 نکات پر عمل کیا جائے جبکہ وہ نکات سب کو معلوم ہیں بتانے کی ضرورت نہیں ۔مراسلہ جاری ہونے کے کچھ ہی دیر بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک سماجی پیغام رساں ویب سائیٹ پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا پیغام آتا ہے جس کے آخری تین الفاظ نہایت سخت اور معنی خیز تھے پیغام تھا "Report is Rejected"
لیجئے جناب ایک نئی بحث، ایک نئی جنگ چینلز میں،میزبانوںمیں، تجزیہ کاروں میں، اس کا آغاز ہو گیا ۔سول اور عسکری اداروں کے درمیان تعلقات کی خرابی کی باتیں سامنے آنے لگیں۔ تمام تر توجہ اور میڈیا پانامہ کی جے آئی ٹی سے ہٹ کر ڈان لیکس کی رپورٹ پر بلکہ سول ملٹری تعلقات پر ہو گئی اور کچھ تجزیہ کاروں اور چینلز نے تو ایسا ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ لیں جی اب تو حکومت پھنس گئی اور اب گئی کہ تب گئی۔ مگر ان سب سے گزارش ہے کہ جناب ایسا کچھ نہیں ہونے والا کیونکہ جن سے امیدیں وابستہ ہیں وہ ایسا کچھ کرنے کے ارادے میں نہیں ہیں اور اگر اپوزیشن ایسا سوچ رہی ہے کہ نواز شریف خود اپنی حکومت ختم کردیں تو اپوزیشن بھی خود اپنے پاؤں پر کلہاڑا مار رہی ہے کیونکہ جلد انتخابات کسی صورت بھی کسی کے مفاد میں نہیں سوائے حکومتی پارٹی کے۔ سوال تو بنتا ہے کہ کیسے ؟ کیونکہ زرداری صاحب بھی کہتے ہیں کہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن میں اپنی اکثریت بنانا چاہتے ہیں وہ میں (زرداری) نہیں بننے دونگا ۔ جناب مارچ سے پہلے حکومت جائے نہ جائے مگر مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن میں اکثریت مسلم لیگ ن کی ہوگی کیونکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور وہ سینیٹ میں با آسانی 53 کے قریب یا اِس سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔ میرے قارئین یہ سوال کریں گے کہ قبل از وقت انتخابات کس طرح مسلم لیگ ن کے حق میں جائیں گے تو عرض یہ ہے جناب کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے کامیاب امیدوار جو قومی اسمبلی میں موجود ہیں وہ 140 سے زیادہ ہیں ،یہ مخصوص اور اقلیتی نشستیں نکال کر ہیں تو اس اعتبار سے مسلم لیگ ن کو آنے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ مزید 20 سے 25 ایسے امیدوار تلاش کرنے ہیں یا سامنے لانے ہیں جوکہ قومی اسمبلی کا الیکشن جیت سکیں جبکہ باقی دونوں پارٹیاں پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کو پنجاب میں بالخصوص ہر سیٹ کے لئے ایسے امیدواروں کا انتخاب کرنا ہو گاجو کہ اپنے بل بوتے پر الیکشن جیت سکیں۔جن کو الیکشن جیتنے کے لیے پارٹی ووٹ کی زیادہ ضرورت نہ ہو، ایسے امیدوار تلاش کرنا اپنے اندر کسی معرکے سے کم نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف دونوں کو اپنے صوبوں میں بھی گرفت کافی مضبوط رکھنا ہو گی۔ پیپلزپارٹی سندھ میں تو گرفت کافی مضبوط رکھتی ہے۔ مگر اسے پھر بھی خیال رکھنا ہو گا کیونکہ قوم پرست جماعتوں کا اتحاد اس میں پیر صاحب پگارو کا عمل دخل اور مسلم لیگ (ن) کا ان کے سر پر ہاتھ اور سندھ میں وارد ہوئے نئے گورنر صاحب جو کہ کافی متحرک ہیں ان سب کا خیال پیپلزپارٹی کو رکھنا ہو گا اور ساتھ ہی کراچی کی سیاست کو ہاتھوں سے پھسلنے سے بچانا ہو گا۔ اب اگر یہ سب کچھ PPP کر لیتی ہے تو اس کی ساکھ بھی بچتی ہے اور سیاست بھی ۔
اب چلتے ہیں کے۔پی میں تو تحریک انصاف کو یہاں کافی امتحان سے گزرنا ہے کیونکہ صوبے کے عوام خان صاحب کو اس بات کا کریڈٹ نہیں دیں گے کہ آپ آدھا وقت الیکشن میں دھاندلی کو ثابت کرنے میں لگے رہے پھر باقی آدھا وقت آپ نے پاناما کو ثابت کرنے میں لگا دیا اوربس جو آپ ثابت کرنا چاہتے تھےوہ ثابت نہ ہوا ۔ کے۔ پی کے عوام یہ سوال کریں گے کہ جناب آپ نے یہاں کیا کیا؟ آپ کو ووٹ صوبے میں بہتری لانے کے لیے دیا تھا۔ آپ نے صرف پولیس کو ٹھیک کیا۔ یا درخت لگائے۔ اس کے علاوہ آپ نے کیا کیا؟ جبکہ آپ سرمایہ کاری لا سکتے تھے۔ آپ غیر ملکی کمپنیوں کو یہاں لا کر یہاں کے تعلیم یافتہ طبقے کی زندگی بدل سکتے تھے۔ آپ باقی ملک میں احتساب کا نعرہ لگاتے رہے اور اپنے صوبے میں جہاں آپ کی حکومت تھی احتساب کے ادارے کا بوریا بستر آپ نےخود ہی لپیٹ دیا۔ ہم آپ کو آنے والے وقت کے لیے کیوں منتخب کریں؟ تو تحریک انصاف کے لیے آنے والا الیکشن بہت کڑا ہے اور میرا اندازہ یہ کہتا ہے کہ تحریک انصاف آنے والے الیکشن میں (کے۔پی) میں بھی حکومت بنانے میں سنگین مشکلات کا شکار ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ نہ بنا پائے ۔ اس وجہ سے جناب قبل از وقت حکومت ختم ہونا مسلم لیگ (ن) کے حق میں ہو گا اور باقی تمام پارٹیوں کے خلاف جائے گا۔ تو جو لوگ نواز شریف صاحب کی حکومت ختم کرنا چاہتے یا چاہتے ہیں کہ قبل از وقت الیکشن ہو جائیں تو سیاست کے ادنیٰ سے طالب علم کی حیثیت سے مجھے ان کے اس فیصلے میں دانش نظر نہیں آ رہی۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) نے تو بہت عرصہ سے اپنی الیکشن مہم شروع کر رکھی ہے۔ سرکاری وسائل کو انتخابات کے حوالے سے کس طرح استعمال کرنا ہے اس سے بھی وہ بخوبی واقف ہیں۔
دوسرا خیال یہ کیا جا رہا ہے کہ لوڈ شیڈنگ ان کا راستہ روک لے گی۔ مگر ایسا نہیں ہو سکتا جناب کیونکہ نواز شریف صاحب کو اور شہباز شریف صاحب کو کچھ بھی کرنا پڑا وہ لوڈ شیڈنگ کو عارضی طور پر ہی سہی لیکن ختم کر دیں گے۔ چاہے تمام پلانٹ LNG پر ہی کیوں نہ چلانے پڑیں۔ جس کی تازہ مثال بھیکی پاور پلانٹ ہے اور کچھ حصہ نندی پوری پاور پلانٹ کا ہے جو کہ LNG پر چلا دیے گئے ہیں۔ اب چاہے سرکلر ڈیٹ جتنا بھی ہو وہ اگلی بار حکومت میں آ کر دیکھا جائے گا۔ اور پھر بجلی کی کھپت ہے بھی تو صرف مئی سے لے کر ستمبر تک، اکتوبر میں موسم معتدل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور آہستہ آہستہ بجلی کی طلب میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اگر اس وقت اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کروا دیے جائیں جو کہ دسمبر یا جنوری میں منعقد ہو سکتے ہیں تو قومی سطح پر پھر مسلم لیگ (ن) کی جیت یقینی ہے۔ اس لیےبادی النظر میں قبل از وقت انتخاب میں فائدہ صرف (ن) کا ہے۔
اب کچھ تذکرہ ان خیالات کے حوالے سے جو ہمارے وہ دوست لیے بیٹھے ہیں جو کہ ڈان لیکس اور پاناما پر بننے والی جے آئی ٹی سے بہت پر امید ہیں۔ میرے خیال میں ڈان لیکس پر ہونے والی اب تک کی تمام پیش رفت اتنی ہے نہیں جتنا اسے بڑھا چڑھا دیا گیا ہے۔ اور دونوں فریقین ان انتہاؤں پر نہیں ہیں۔ کچھ مسائل ہیں مگر وہ سلجھ سکتے ہیں وہ ایسے نہیں ہیں جن پر دونوں فریقین پیچھے نہ آ سکتے ہوں۔ یہ صرف ہمارے چند تجزیہ کاروں اور چند ایک نجی ٹی وی چینلز کی اڑائی ہوئی دھول ہے جو یوں معلوم ہوتی ہے کہ حکومت کی جان کو اٹک چکی ہے یا حکومت کی جان لے کر ہی چھٹے گی۔ باقی کچھ نہیں۔ ہاں فوج اپنے موقف پر قائم ہے کہ اصل بندہ دیا جائے جس نے یہ بات صحافی تک پہنچائی ہے۔ ویسے ڈان لیکس سے یاد آیا کہ آج کل چوہدری نثار صاحب کا رویہ بھی نواز شریف صاحب کی جانب زیادہ شفقت بھرا ہے۔ بجائے ماضی کی طرح دوسری جانب ہونے کے یا یہ ایک سوچی سمجھی موو ہے صرف عوام کے لیے۔ واللہ اعلم۔
اب رہ گیا جے آئی ٹی کا معاملہ جس کے حوالے سے 3 رکنی بنچ نے SECP اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے دیے گئے ناموں پر عدم اعتماد کرتے ہوئے سب نام مسترد کر دیے اور حکم دیا کہ سینئر لوگوں کے نام دیے جائیں، وہ خود چنیں گے۔ اور عدالت عالیہ کو کسی دباؤمیں نہ لایا جائے اور نہ ہی عدلیہ سے کھیلنے دیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی نے کھیلنے کی کوشش کی ہے یا دباؤمیں لانے کی کوشش کی ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندوں کے نام جے آئی ٹی کے لیے جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے خود فائنل کیے ہیں۔ وہاں جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے یہ احکامات جاری کر رکھے تھے کہ JIT کے لیے افسران کا انتخاب ڈی جیز نہیں میں خود کروں گا۔ میری اطلاعات کے مطابق ہمارے آئی ایس آئی چیف جو کہ ایک پیشہ ور فوجی افسر ہیں ان کے ایک رشتہ دار نے ان سے رابطہ کیا ( یہ وہی رشتہ دار ہیں جنہوں نے بلدیاتی انتخاب میں پنجاب میں اور خاص کر جنوبی پنجاب سے (ن لیگ )کے چیئر مین اور نائب چیئر مین منتخب کر وانے میں بڑا واضح کردار ادا کیا) اور ان سے اس حوالے سے تعاون چاہا تو ان کو یہ جواب دیا گیا کہ جناب مجھے سسٹم کے ساتھ چلنا ہے سسٹم کو میرے ساتھ نہیں اور چیف صاحب بہت سے معاملات براہ راست دیکھ رہے ہیں۔ سو حالات اتنے سیدھے بھی نہیں ہیں جتنے سیاسی ورکر سوچ رہے ہیں اور اتنے برے بھی نہیں جتنے لوگ خیال کر رہے ہیں۔ ہاں زرداری صاحب نے بارہا کہا ہے کہ نواز شریف صاحب کو تھکا کر ہرائیں گے اس لیے یہ نواز شریف صاحب کی خواہش تو ہو سکتی ہے کہ وہ کوئی بہانہ بنا کر قبل از وقت انتخابات میں چلے جائیں۔ اس لیے وہ کریز سے باہر نکل کر کھیلنا چاہ رہے ہیں مگر سامنے سے جواب نہیں آئے گا اور نہ ہی وہ رن لینے دیں گے۔ پھر ایک جملہ رہ جائے گا نواز شریف صاحب کے پاس جو وہ کہہ کر قبل از وقت انتخابات میں جا سکتے ہیں کہ آپ جے آئی ٹی کے حوالے سے بھی متفق نہیں تو چلیں عوام کی عدالت میں چلتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کون سرخرو ہوتا ہے۔ میری تمام سیاسی طاقتوں سے اپیل ہے کہ انھیں وقت مکمل کر کے عوام کے سامنے آنے دیں اور خود بھی تیاری کریں۔ اور اہل ہو کر اہل نظر کے پاس آئیں۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔