مودی اور اشرف غنی آپریشن ردالفساد کی کامیابی پر پریشان ،سرحدوں پر کشیدگی اسکا ردعمل ،افغانستان کے چہیتے پاکستانی سیاستدان خاموش کیوں ہیں:سینیٹر ساجد میر

مودی اور اشرف غنی آپریشن ردالفساد کی کامیابی پر پریشان ،سرحدوں پر کشیدگی ...
مودی اور اشرف غنی آپریشن ردالفساد کی کامیابی پر پریشان ،سرحدوں پر کشیدگی اسکا ردعمل ،افغانستان کے چہیتے پاکستانی سیاستدان خاموش کیوں ہیں:سینیٹر ساجد میر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) مرکز ی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ  سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ بھارت اور افغانستان آپریشن ردالفساد کی کامیابی پر پریشان ہیں،سرحدوں پر کشیدگی اسکا ردعمل ہے، کھلم کھلا جارحیت پر دشمن کوسخت جواب دینے کی ضرورت ہے، علما ء ملکی سلامتی کے لیے انتہا پسندانہ رحجانات کی حوصلہ شکنی کریں،دینی اقدار کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی قربانی دیں گے۔

راوی روڈ پر علما ء کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے  سینیٹر پروفیسر ساجدمیر نے سوال اٹھایا کہ افغانستان کے چہیتے پاکستانی سیاستدان خاموش کیوں ہیں؟افغان سرحد پر بہتر مینجمنٹ غیر قانونی آمد و رفت کی روک تھام دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے،کابل میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر و رسوخ کے باعث مغربی سرحد اب پہلے کی طرح محفوظ نہیں ہے، اسے محفوظ بنانے کیلئے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو ہی موثر کردار ادا کرنا ہے ،جس کیلئے بہتر بارڈر مینجمنٹ اورمانیٹرنگ کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی سلامتی سب سے زیادہ عزیز ہے،اقوام عالم اور عالمی اداروں کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف جاری بھارتی اور افغان سازشوں سے مکمل آگاہ کرنے کی ضرورت ہے،  دہشت گرد افغان سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں جس کی روک تھام کے لئے پاکستان کے پاس سرحدیں بند کرکے سرحدوں پر باڑ لگا کر خندقیں کھود کر اور نئی چیک پوسٹیں اور حفاظتی چوکیاں بنا کر محفوظ سرحدی آمد و رفت کنٹرول کرنے کی سعی کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہ رہا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے 47 فیصد حصے پر  اشرف غنی حکومت  کی کوئی عملداری نہیں، یہ علاقے افغان طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے قبضے میں ہیں، افغانستان میں داعش نے اپنے تربیتی کیمپ قائم کئے ہوئے ہیں۔ پروفیسر ساجد میر نے مزید کہا کہ بھارت نے افغانستان میں 29  غیر ضروری قونصل خانے کھولے ہیں،جن کے ذریعے وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے سر گرم عمل ہے، جب تک افغان حکام سرحدی معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور سرحدوں کو مضبوط بنانے کی دو طرفہ ذمہ داری میں ساپنا عملی کردار نہیں دکھاتے اس وقت تک اعتماد سازی مشکل امر ہوگا۔

مزید :

قومی -