عمران خان بدل رہا ہے

عمران خان بدل رہا ہے
عمران خان بدل رہا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عمران خان وزیراعظم کی کرسی کی جانب جانے والی سڑک پر رواں دواں ہیں، ان کے راستے میں پڑنے والے سبھی سرخ اشارے سبز ہوتے جارہے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں سبز جھنڈی دکھا دی گئی ہے، ان کے راستے میں ابھی بہت سے مسائل ہیں، جنہیں حل کرنے کے لئے وسائل پیدا کئے جارہے ہیں، ان کے چاہنے والے پر امید ہیں کہ اس بار ایسے حالات بن چکے یا بنا دیئے گئے ہیں کہ عمران خان وزیراعظم کی کرسی پر پہنچے کہ پہنچے، مگر ان پرامید دوستوں کو یہ بھی پریشانی ہے کہ اگر راستے میں کہیں کوئی رکاوٹ آگئی تو پھر پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے، اور پھر پریشانی یہ ہے کہ اگر عمران خان اس بار بھی ناکام ہوتے ہیں تو پھر کام سے گئے؟ اور سمجھا یہ جائے گا کہ اب اگر ان کے ہاتھ میں وزیراعظم کی لکیر ہی نہیں ہے تو کیا اب ’’چھری‘‘ سے کاٹ کے بنائیں؟


زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے، اور عمران خان بھی زمانے کی چال چل رہے ہیں، ان کے نظریات (اگر تھے تو) تو اب بدل چکے ہیں، وہ تسلیم کرچکے ہیں، پاکستان کے سیاسی حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی تبدیلی لا سکیں، تبدیلی لانے کے لئے انہیں خود کو بدلنا ہوگا، وہ بدل رہے ہیں، اور روزانہ کی بنیاد پر بدل رہے ہیں، خود کو بدلنے کا تجربہ انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے کیا، یعنی اپنا ہاتھ زرداری کے ہاتھ میں دے دیا، اس ہاتھ کی برکت نے انہیں بلوچستان کی حد تک ایک ’’قوی علامت‘‘ کے طور پر نمایاں کیا، سنا ہے بلوچستان کے پہاڑ اب عمران خان کے نام کے گیت گاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دھرتی پر کوئی تو ایسا شخص بھی آیا جس نے بلوچستان کے دکھ کو محسوس کیا اور چیئرمین شپ دلائی۔


اب عمران خان ہوا میں اڑ رہے ہیں، مینار پاکستان کے جلسے کے بعد تو جیسے انہیں پر لگ گئے ہیں، وہ نواز شریف کو چیلنج کررہے ہیں کہ اگر ہمت ہے تو مینار پاکستان پر جلسہ کرکے دکھاؤ، ان کا چیلنج مولانا فضل الرحمن نے قبول کرلیا ہے، مگر نواز شریف کے لئے مشکل ہے، اب ایک ارب روپے کا معاملہ ہے، نواز شریف ٹھہرے کنجوس آدمی، وہ کہاں سے ایک ارب روپے خرچ کرنے والے ہیں؟


عمران خان کے اس رویئے یا چیلنج کی مجھے یہی سمجھ آتی ہے کہ جب ہم بچے تھے تو آپس میں لڑ جھگڑ بھی پڑتے تھے، اور لڑائی میں جب مار پڑتی تھی تو ہم سیدھے اپنے گھر کی طرف دوڑ لگا دیا کرتے تھے اور دوڑتے دوڑتے مخالف بچے کو کہا کرتے تھے، اگر ہمت ہے تو ہماری گلی میں آکے دیکھنا، یہ ایک بچگانہ چیلنج ہے، یہ تو شکر ہے کہ آگے سے نواز شریف بچے نہیں بنے،بصورت دیگر مینار پاکستان کے پودوں کو ایک با پھر ہجوم کے پاؤں سے کچلے جانے سے مرنا پڑتا۔ عمران خان نواز شریف پر الزام بھی لگا رہے ہیں کہ وہ حساس اداروں پر الزام تراشی کرتے ہوئے کون سی حب الوطنی دکھا رہے ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ رات انہوں نے ایک بڑے الیکٹرانک میڈیا پر جو گفتگو کی، وہ حیران کن حد تک نواز شریف کے حالیہ بیانیہ جیسی تھی، عمران خان اس الیکٹرانک میڈیا کو ایک عرصے تک ’’نواز شریف‘‘ کا اتحادی قرار دیتے تھے، اور انہوں نے میڈیا مالک کو غدار، وطن دشمن، مافیا اور نجاے کن کن خطابات سے نوازا، باقاعدہ بائیکاٹ کئے رکھا، مگر گزشتہ رات وہ اسی میڈیا پر ایک معروف اینکر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے نظر آئے، ایک گھنٹے کی اس گفتگو میں بہت سی باتیں کیں، مگر سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ 2013ء کے الیکشن میں عدالت اور فوج نے مل کر ان کا راستہ روکا اور نواز شریف کو کامیاب کرایا، ادھر نواز شریف بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ان کا راستہ روکا جارہا ہے، سزائیں دی جارہی ہیں، نااہلیاں کی جارہی ہیں اور میرے خلاف نا جائز مقدمات بنا کے فیصلے سنائے جارہے ہیں، تاکہ میں 2018ء کے انتخابات میں آگے نہ بڑھ سکوں، نواز شریف تو پھر بھی خلائی مخلوق کا لفظ استعمال کرتے ہیں، مگر عمران خان نے تو باقاعدہ فوج اور عدالت پر نام لے کر جانبداری کا الزام لگایا ہے، کہ انہوں نے نواز شریف کو آگے اور مجھے پیچھے کیا ہے۔


عمران خان 2013ء کی جس ’’دھاندلی‘‘ کی بات کررہے ہیں، نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ 2018ء کے الیکشن میں اسی طرح کی دھاندلی ہوگی، اب اگر عمران خان اور نواز شریف کا بیانیہ ملاکر پڑھا جائے تو دونوں ایک ہی پِچ پر کھڑے ہیں، اپنے اپنے حالات کے مطابق غلط بات نہیں کررہے، تو پھر اب وقت آگیا ہے کہ اس بات پر کوئی ثبوت بھی سامنے لائے جائیں، عمران خان کو چاہئیے کہ وہ 2013ء کے الیکشن کے حوالے سے جو بھی ثبوت ہیں قوم کے سامنے لائیں، اور بتائیں کہ اگر ان دو اداروں نے انتخابات میں اپنا کردار ادا کیا ہے تو کیسے کیا ہے، کس کے حکم پر کیا ہے، عمران خان کو اب جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالت میں جانا چاہئے، جہاں سابق آرمی چیف اور سابق چیف جسٹس کو بھی بلایا جانا چاہئے، اور ساتھ ہی ان کرداروں کو بھی بلایا جانا چاہئے جنہوں نے عمران خان کو شکست دینے کا بندوبست کیا، مگر عمران خان ایسا نہیں کرسکتے، کیونکہ ان کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں، وہ ہوائی بات کرتے ہیں، ان کی کوئی بھی رائے آخری رائے نہیں ہوتی، وہ کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں، جیسا کہ اب آہستہ آہستہ بدل رہے ہیں، اور مزید بدلتے جائیں گے، مثال کے طور پر کل تک جس الیکٹرانک ادارے کو وہ وطن دشمن، غدار قرار دے رہے تھے، اب اس ادارے کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لئے سب کچھ بھول چکے ہیں، کیا ان کی نظر میں یہ ادارہ اب وطن پرست اور محب وطن ہوگیا ہے، اگر ایسا ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا، کہ جو شخص یا ادارہ عمران خان کے ساتھ اختلاف کرتا ہے وہ وطن دشمن ہے اور جو ادارہ یا شخص عمران کے حق میں ہوجائے وہ وطن پرست اور محب وطن کہلاتا ہے، اصولی طور پر میڈیا کے اینکر کو چاہئے تھا کہ وہ عمران خان سے پوچھتے کہ آپ ایک عرصے تک ہمارے ادارے اور سربراہ کو وطن دشمن، غدار، میڈیا مافیا، کے نام سے یاد کرتے رہے ہیں کیا اب بھی آپ ایسا ہی سمجھتے ہیں۔


مگر طے شدہ انٹرویو ایسی باتوں کے لئے نہیں ہوتے، پہلے سے طے کرلیا جاتا ہے کہ کیا کیا باتیں ہوں گی، مگر مجھے لگتا ہے کہ اینکر ایک بار پھر عمران خان کے ساتھ ہاتھ کرگیا ہے، یعنی اس نے فوج اور عدلیہ کی سابق قیادت پر الزام لگوا دیا ہے کہ وہ نواز شریف کے ساتھ تھی، اب دیکھنا یہ ہے کہ سابق آرمی چیف اور سابق چیف جسٹس اس بارے میں کیا کہتے ہیں، اعلیٰ عدلیہ از خود نوٹس لیتی ہے یا نہیں، لیکن اس بات پر اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجانا چاہئے، اور پھر اگر عمران خان اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو نقصان نواز شریف کا ہوگا، یعنی اگر عمران خان یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر اس کیس میں اور کسی کو سزا ہو یا نہ ہو نواز شریف کو ایک بار پھر سزا ہو سکتی ہے، رہا سابق آرمی چیف، سابق چیف جسٹس کا معاملہ تو وہ بھی سر خرو ہوسکتے ہیں، قوم اس حوالے سے بے چینی کے ساتھ منتظر ہے کہ حقائق کو سامنے لایا جائے، اب دیکھتے ہیں کہ قوم کے اس مطالبے کو پورا کرنے کی پہل کون کرتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -