دعا  ہو  کہ درد ِ دل کی  دوا  ہو 

دعا  ہو  کہ درد ِ دل کی  دوا  ہو 
دعا  ہو  کہ درد ِ دل کی  دوا  ہو 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پارلیمان میں بجٹ پہ بحث جاری ہے لیکن ہر روز وہی مصیبت کہ کبھی کورم پورا نہیں ہے تو کبھی حکومت جواب دینے کے موڈ میں نہیں ہے – یہ بات بھی کب کس سے پوشیدہ ہے کہ تمام جماعتوں کا مطالبہ کچھ اور تھا لیکن حکومت اپنی ضد پہ اڑی تھی اور اسی میں

آخر  بجٹ پیش ہوگیا ۔ صبح کے اجالوں کے ساتھ جناب  مفتاح اسماعیل صاحب کی قسمتیں جگمگائیں اور انہوں نے وفاقی وزیر کے طور پر پارلیمان کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی قانونی سقم کا فائدہ اٹھایا اور منتخب نمائندوں کو بتایا کہ جمہوریت میں بھی ایک غیر منتخب ٹیکنو کریٹ کو کیسے اعداد کے ساتھ کھیلتے ہوئے اپنی برتری دکھا نے کا موقع مل سکتا ہے ۔ معین قریشی صاحب  سے  لے کر شوکت عزیز صاحب تک   ہندسوں کے گورکھ دھندے  ہر کسی  کو سمجھ نہیں آتے   سو انہوں نے بھی اپنے اپنے وقتوں میں بہتی گنگا میں  خوب ہاتھ دھوئے – جہاں تک جناب مفتاح اسماعیل صاحب کا معاملہ ہے  تو ان کے کیس میں سونے پہ سہاگہ یہ بھی ہے کہ  وہ منتخب وفاقی وزیر   تو ہیں لیکن پارلیمنٹ کے ممبر نہیں سو کسی باسٹھ ون  ایف کا  ڈر بھی نہیں اور نہ پیش کئے گئے اعداد و شمار قابل گرفت ۔ہونٹوں پہ ہنسی سجائے اور اسمبلی میں ایک مچھلی بازار لگائے اپنے اقتدار کے آخری چونتیس دن میں اگلے پورے ایک سال کا بجٹ پیش کر دیا  -

یہ موجودہ حکومت کا چھٹا بجٹ  ہے جسے کسی نے غیر آئینی ٹھہرایا تو کسی نے اسے پری پول رگنگ گردانا ۔ ڈالر نے ملکی معیشیت کی چیخیں نکلوا دی ہیں ۔ پچھلے پانچ سال میں برآمدات کم ہوئیں ۔ درآمدات بڑھیں ۔ قرضے خوفناک حدوں کو چھونے لگے ہیں لیکن پانچ اعشاریہ آٹھ کے ہندسے پہ بتائی جانے والی ملکی ترقی تھی تو سمجھ سے باہر لیکن عوام نے اپنے نو منتخب وفاقی وزیر صاحب کے منہ سے تو یہی  سنا ہے   اور  پھر کسی نے تعریفوں کے ڈونگرے برسائے تو کسی نے انگلیاں منہ میں دبا  لیں -   ہر کوئی مصروف  ہے  چہ میگوئیاں  کرنے میں  اور ایسے حالات میں آج  جب کہ ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین شرح تبادلہ کو چھو رہا ہے تو ملکی وزیر ِخزانہ جناب اسحاق  ڈار صاحب بھی  8 مئی کو سپریم کورٹ میں حاضر  ہونے  کے پابند ٹھہرائے گئے ہیں  -لیکن کہاں جی ۔۔۔   وہ سیاست دان ہی کیا جو اتنی آسانی سے پکڑائی دے، سو انہوں نے ایک میڈیکل سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیا ہے  کہ جس کے مطابق ان کے سفر پہ پابندی ہے اور مکمل آرام کی تجویز بھی در ج ہے-آٹھ تاریخ کو وہ لندن کے مشہور ہارلے کلینک میں ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں اٹھنے والے شدید درد کی دوا کرواتے ہوئے اس ڈالر کے ہاتھوں ہوتےملکی قرضہ جات میں اضافہ اور روپے کی تذلیل پہ دعائے خیر فرمائیں گے ۔ جناب وزیر خزانہ شدید بیمار ہیں اور سفر کے قابل نہیں ہیں لیکن سینٹ کی سیٹ پہ سب سے  زیادہ موزوں امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں ۔ ان کے کارناموں میں سے ایک بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے مصنوعی طور پہ ڈالر کی شرح تبادلہ کو سہارا دیے رکھا اور ایسے اعداد و شمار بھی پیش کئے کہ جن کے درست نہ ہونے پہ عالمی مالیاتی ادارے کے ہاتھوں جرمانے کے طور پہ خطیر رقم  حکومتی خزانے سے ادا کی گئی  ۔

بابائے قوم قائد اعظم ؒ کے مشہور الفاظ ہیں جو انہوں نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان  سے خطاب کے دوران کہے تھے  کہ اسٹیٹ بنک ایک خود مختار ادارہ ہے  شاید اس کی خود مختاری تو  کہیں نظر نہیں آتی کیونکہ اس کے سربراہ کی تقرری سے لے کر اسے احکامات وزارت ِ خزانہ سے ہی ملتے رہے ہیں اور اسے انتظامی امور  میں ایسے جکڑ لیا  گیا ہے کہ  چھری کے نیچے کب اس میں دم ہے کہ کچھ پھڑ پھڑائے بھی- جس سے  ملکی قرضہ جات کا حجم اتنا بڑھ گیا ہے کہ شاید اگلے قرضوں کے لئے رکھی جانے والی شرائط ملکی سلامتی اور مفادات کو خطرات میں  ہی ڈال دے ۔  ترقیاتی  کاموں میں ترجیح تو  بنیادی انسانی حقوق سے  منسلک ہونی چاہیئے تھی – تعلیم ، صحت اور  پانی کے مسائل کو پہلے اہمیت دی جانی چاہیئے تھی لیکن ہم نے سڑکیں بنا کے  اللہ نہ کرے اپنی آزادی گروی رکھنے کا جو پروگرام بنایا ہوا ہے وہ مجھے تو چین نہیں لینے دیتا- آج کل تعلیم کی بات ہو تو خادمِ اعلیٰ دانش سکولوں کی بڑھ چڑھ کے بات کر رہے ہیں اور اپنے کارناموں میں ایک کارنامہ گردان رہے ہیں لیکن شاید وہ ان علمی اداروں کو بھول گئے ہیں جہاں قبرستانوں میں آباد اسکول نہایت تندہی سے خدمات انجام دے رہے ہیں  -بچے پڑھ بھی رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے آباؤ اجداد کی مغفرت کی دعا بھی وہیں فرما رہے ہیں – - کئی اسکول تو شاید سرے سے  ہیں ہی نہیں  کیونکہ وہ یا تو مویشی باندھنے کے بھاڑے ہیں یا کسی زمیندار کا گودام لیکن اس  اہم مقدس فرض کی تکمیل کے لئے تنخواہیں باقاعدگی سے ان اسکولوں کے ملازمین کو جارہی ہیں – کئی اساتذہ کرام تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنا کوئی اور کاروبار چمکایا ہوا ہے اور اپنی جگہ سکول جانے کے لئے ارزاں نرخوں پہ کوئی  ملازم رکھا ہوا ہے-قومی اداروں پہ چڑھائی کرتے وقت جب جناب میاں نواز شریف صاحب سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف صاحب کا رونا عوام کے سامنے خوب تواتر سے روتے ہیں تو  عقل و دانش کو ورطہءحیرت میں ڈال دیتے ہیں ۔ نجانے کیوں وہ نہیں بتاتے کہ عوام کی ووٹ کے ساتھ چنے گئے ارکان اسمبلی نے عوام کی طاقت کے ساتھ انہیں وزیراعظم بنا کے یہ اختیار دیا تھا کہ وہ اداروں کے سربراہان چنیں ۔ ووٹ کے تقدس کی باتیں کرتے آپ جب روہانسی آواز کے ساتھ عوام کو پکارتے ہیں تو  سمجھ نہیں آتا کیا کیا جائے- ان سے یہی دست بستہ گذارش کی جا سکتی ہے کہ آپ  ان ذرائع کو عوامی  عدالت  میں ہی  عوام کو بھی دکھا دیجئے پھر یہ قوم آپ کے تحفظ کے لئے نہ اٹھ کھڑی ہو تو  آپ کا اعتراض بنتا ہے آپ اپنے آپ کو اخلاقی طور پہ مضبوط کیجیے پھر کون ہے جو  آپ کی ہوا کو بھی چھو سکے -جب آپ ہم سے وعدہ لیتے ہیں کہ جہاں سے بھی آپ پکاریں گے ہم لبیک کہتے ہوئے فرسودہ نظام کے مظالم کے سامنے ڈٹ جائیں گے تو یقین مانیئے سارا پاکستان اس نظام سے تنگ ہے جس نے پچھلے ستر سال میں انہیں بھوک ۔ بے روزگاری ۔جہالت ۔ بیماری اور کسمپرسی کے علاوہ کچھ نہیں دیا لیکن آپ بھی  خدارا بیرون ملک ناجائز گیا پیسہ  لے آئیے  تاکہ صنعتیں  لگیں  ،روز گار ملے اور سب کی روزی و روٹی کا انتظام ہو پر جب ہمارے درمیان معاشی و معاشرتی تضاد اتنا ہو گا تو  پھر  منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والوں کو کیا پتہ کہ ہر سال کے پیش کئے گئے بجٹ کے بعد زندگی جی جاتی ہے کہ صرف کاٹی جاتی ہے ۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جن کے پاس دوسرے ممالک کا اقامہ ہے  ان کی عوام اپنے ملک میں اپنے جائز حق کے لئے قطاروں میں کھڑی فقط مرتی جاتی ہے ۔  کیوں سب کے لئے  مساوات اور عدل کا نظام نہیں ہے ملکی ترقی کی ذمہ داری ہم سب کی ہے  تو مواقع  بھی سب کے لئے یکساں  ہونے چاہییں ۔ ملک میں معاشی ایک کلاس ہو  وہ کلاس سچے پاکستانیوں کی کلاس ہو  ۔ پھر جو شیر و شکر ہوں گے تو کب جدا ہو پائیں گے-(drshahidsiddique786@gmail.com)

  ۔۔

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -