شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... پہلی قسط
اس موضوع پر میری متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں جو ساری کی ساری میرے شکار کی مہمات پر مشتمل ہیں .....سچے واقعات..... اور میرے اپنے تجربات کو مفصل بیان کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ واقعات تعجب خیز معلوم ہوتے ہیں۔ اور فطرت انسانی کچھ ایسی ہے کہ جو واقعہ اس غیر معمولی یا حیرتناک معلوم ہوتا ہے اس کے یقین کرنے پر اس کی طبیعت آمادہ نہیں ہوتی .....انسان وہی کچھ یقین کرنا چاہتا ہے جو اس کے اپنے تجربات اور مشاہدات کے مطابق ہو ۔ اکثریوں بھی ہوا کہ جو غیر معمولی واقعہ یا مسئلہ پیش کیا گیا انسان نے اس کے وجود سے ہی انکار کر دیا .....حتیٰ کہ کافروں کو جب یہ بتایا گیا کہ اس تمام کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ..... تو ان کافروں نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ..... پھر توحید کی اطلاع دی گئی تو انھوں نے اس بات کو سنتے ہی بیزاری ظاہری کی .....
میرے شکار کے تجربات‘ واقعات اور مہمات پر اگر اکثر قارئین کو یقین نہ آئے ..... یا شک ہو تو کوئی عجیب بات نہیں ..... جب خداتعالیٰ سبحانہ کے وجود سے انکار کیا جا سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ سبحانہ کے ایک بندے کی کہانی پر شک حیرت انگیز نہیں ..... خصوصاً وہ لوگ جو شہروں آبادیوں کی رونق سے لمحہ بھر کا فرق بھی گوارا نہیں کرتے ..... جب کسی کی تفریح صرف ڈرائنگ روم اور ڈائننگ روم تک محدود ہو..... جو کبھی عجائب گھر بھی نہیں گئے کہ وہاں گرفتار قفس شیر ‘ چیتے اور ریچھ ہی دیکھ لیتے ..... ان کی شیر ‘ چیتے اور ریچھ کے بارے میں معلومات ان تصاویر تک محدود ہیں جو گاہ بہ گاہ اتفاق ان کی نظر سے گزریں .....
میرے تجربات ‘ مشاہدات ‘ تجزیات اور بعض انتہائی خطرناک واقعات غیر معمولی ہیں ..... حیرت انگیز ہیں اور صرف اسی شخص کو پیش آسکتے ہیں جس نے میری طرح پچاس سال مہم جو یا نہ زندگی بسر کی ہو ..... خونخوارد درندوں خطرناک جنگلوں اور دہشتناک علاقوں میں کئی کئی دن اور کئی کئی راتیں بسر کی ہوں ..... اور اللہ تعالیٰ سبحانہ کی عنایت کے طفیل سلامت بھی رہا ہو۔
بیشمار لوگ تو ایسے بھی ہیں جو خود اپنے گھر کی محفوظ چار دیواری کے اندررات کے اندھیرے میں تنہا جانے سے ڈرتے ہیں ۔ ایک کمرے سے دوسرے کمر میں جانا گھبراہٹ کا باعث ہوتا ہے اکثر ایسے لوگ ہیں جودن کے وقت گھنے اور ایسے جنگل میں جانے سے احتراز کرتے ہیں جہاں کسی قسم کا خطرہ موجود ہو ..... رات کو تو ویران سڑک پر نکلنا ایسے لوگوں کے لیے جان لیوا ہوتا ہے .....
میں پہلی بار ..... گیارہ سال کی عمر میں ..... اپنے ایک عزیز گرامی کی معیت میں ۔۔۔۔۔دن کے وقت مچان پر بیٹھا ..... اور مجھ پر خفیف گھبراہٹ طاری ہوئی جسے میرے بزرگ محترم کے چند حوصلہ افزا جملوں نے رفع کردیا ..... اس روز چھ گھنٹے مچان پر بیٹھ کر ..... سہ پہر کو ساڑھے تین بجے میں نے پہلا درندہ ..... چیتا ..... شکار کیا ..... یہ ایک چھ فٹ ساڑے سات انچ کا نہایت سحت مند جوان چیتا تھا ..... اور وہ سارا منظر چیتے کا جھاڑی میں سے سر نکال کر دو گھنٹے بار بار اس گارے (BAIT) کی طرف دیکھتے رہنا جو اسی کی ضیافت کے لیے باندھا گیا ..... پھر بے چینی اور شک کی حالت میں کہیں گاہ بدلنا ..... ایک جھاڑی سے دوسری میں جانا ..... آخر کار جھاڑی کے نسبتاً روشن حصے میں آنا ..... اس طرح کہ اس کو صاف دیکھا جا سکے ..... میرے اپنے محترم بزرگ کی ہدایت کے مطابق سینے کے حصے کا نشانہ لیکر ٹریگر دبانا ..... شانے پر تھرٹی اسپرنگفیلڈ رائفل کا دھکا (Recoil) زبردست دھماکہ جس کا میں عادی تھا ،چیتے کا اپنی جگہ پر اچھلنا جیسے گولی کے زور نے اس کو اچھال دیا ہو ..... پھر زمین پر گرنا ..... اور چاروں ہاتھ پیر ہوا میں چلانا .....
میں نے بولٹ کو حرکت دے کر خالی کارتوس (EJECT) ہونے دیا ..... اور دوسرا چیمبر میں لگا کر فائر کے لیے تیار ہوگیا ..... لیکن ..... چیتا فنا ہوگیا .....
میری خوشی ..... اطمینان .....ٖٖفخر ..... کی حدود کا اندازہ دشوار ہے ..... پہلا شکار وہ بھی چیتا ..... ایک فائر ..... اور اس قدر کامیاب ..... جب چیتے کا سینہ چاک کر کے دل دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ گولی سیدھی دل میں اتری ..... آدھا دل جل گیا تھا ..... !
ان دنوں نواب حمید اللہ خاں کا عروج تھا ..... ان کے مرشد ..... میرے نانا ..... الحاج حافظ سید ضاء الدین حسنؒ نقوی بخاری..... بقید حیات تھے ..... نانا میاں کے عزیز دوست اور مرید ..... بھوپال کے سابق وزیر اعلیٰ اور نواب سلطان جہاں بیگم والیہ بھوپال کے مشیر خاص ..... سید منصب علی صاحب ریاست کے با اثر ترین شخص تھے ..... ان کے نواسے ضمیر میاں میرے ہم عمر تھے ..... جب میرا شکار ضمیر میاں کو معلوم ہوا تو انھوں نے بھی اپنے والد جلیل میاں سے شکار کا تقاضا کیا ..... لیکن ؟؟؟ان کو اجازت نہیں ملی ..... منصب علی صاحب نے ضرور مجھے توصیغی الفاط میں مخاطب کیا اور حوصلہ افزائی کی .....
ضمیر میاں جوانی میں شکار کے بڑے شائق ہوگئے تھے اور بڑے کروفر کے ساتھ شکار پر جاتے ..... جو اکثر محض پکنک کی نوعیت اختیار کر جاتا .....اللہ تعالیٰ مرحوم ضمیر میاں مغفرت فرمائے ..... جوانی میں ہی انتقال ہوگیا ..... !
اب میں گزرے ہوئے پچاس سال کے عرصے پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے واقعات کا ایک پورا ملک آباد نظر آتا ہے ..... ایک زنجیر ہے جو حلقہ پھیلتی چلی گئی ہے ..... اور اس کے حلقوں میں ..... ہر حلقے میں ..... داستانوں کا ایک خزانہ چھپا ہوا ہے ..... ہندوستان ‘ پاکستان ‘ برما ..... نیپال ..... بھوٹان شمالی علاقہ جات‘ ایران ‘ یوگنڈا ..... کانگو ..... اور ..... آخر امریکہ ..... !
اللہ تعالیٰ سبحانہ کی عنایات کا کتنا شکر ادا کیا جائے ..... انسان تو اس کے احسانات کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہے ..... وہ رحیم و کریم تو صرف احسان ہی فرماتا رہتا ہے اور اپنے نا چیز بندوں پر مہربان ہی رہتا ہے۔
ایران کی شکارگاہ سلطنت شاہ پسند سے چالیس میل شمال مشرق میں شہر جانے والے ہائی وے کے شمال مغرب میں گنبد قابوس کے مشرقی سمت واقع تھی ..... اس شکار گاہ کے قیام ‘ اس کے انتظام اور متعلقہ اور سب میرے مشوروں کے مرہون منت ہوا کرتے تھے اور مجھے بار بار اس شکار گاہ کا دورہ کرنا ہوتا تھا ..... میرے لئے اس سے زیادہ خوش آئندہ کام اور کیا ہو سکتا تھا ..... میں ہر باروہاں تین چار روز ضرور قیام کرتا .....
نزدیک ہی بکثرت ہڑیال تھے ..... گاؤزرد کے نام سے سانبھر کے برابر ہرن کے قبیل کے جانور ہوتے ..... خوبصورت زرد رنگ کھال ..... اچھے بڑے سینگ جو پرانے جانوروں میں چالیس انچ تک بڑھ کر تقریباً اٹھائس انچ تک پھیل جاتے تھے ..... چیتے تھے لیکن کم ..... ایران کے لوگ ..... بڑے مہمان نواز ..... نہایت خوش اخلاق اور خوش مزاج ہوا کرتے تھے ..... لیکن ..... جھوٹ کو ایرانیوں نے فن کا درجہ عطا کردیا تھا ..... بے ایمانی ان کی عادات کا حصہ بن گئی تھی ..... مکاری ان کے اخلاق کا تقاضا ہوگیا تھا ..... اور ان ہی سب ’’صفات‘‘ کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے اپنی بدبختی کو خود پکارا ..... اور اس نے لبیک کہا ..... (جاری ہے)