مذہبی انتہا پسند کون سے دین سے تعلق رکھتے ہیں ؟
دین اسلام مذہب اور سیاست کا مجموعہ ہے ۔ اگر قرآن و حدیث کی روشنی میں دین اسلام کامطالعہ کریں تو جہاں مذہب کی تعلمات ملتی ہیں وہاں ملک کے سیاسی معاملات چلانے کیلئے بھی رہنمائی ملتی ہے۔ اسلام نے انسان کے بنیادی حقوق کا نہ صرف حکم دیا ہے بلکہ ہمارے پیارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے اس کے عملی اقدام بھی نظر آتے ہیں۔ پانی پینے سے لے کر زندگی گزارنے کے ہر قدم پر اسلام کی تعلیمات موجود ہیں۔ یہ اب ہم پر انحصار کرتا ہے کہ ہم قرآن و سنت سے اپنے مزاج کے مطابق صرف مذہبی احکامات کو لیتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری نسلوں میں اسلام کا صرف ایک مذہبی پہلو ہی سامنے آیا اور ہمارے علماء کی کم علمی نے مذہبی انتہا پسندی کو جنم دیا۔
ملک میں پیدا ہونے والے کسی بھی ایشو کوعلما ء کی طرف سے مذہبی رنگ دے کر عوام الناس میں انتشار پھیلانے والے ایسا یا تو اپنی کم علمی کی وجہ سے کرتے ہیں یا پھر کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت ایسے مذموم عمل کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سابق گورنر سلمان تاثیر کو گستاخ رسول قرار دے کر جو ہوا چلائی گئی اس کی زد میں ان چند سالوں میں کتنے واقعات ہو گئے ۔ کتنی جانیں اس مذہبی دہشت گردی کا شکار ہوئیں ۔ حال ہی میں علامہ خادم رضوی کی طرف سے اسلام کے متعلق کم علمی کے باعث دیے جانے والے بیانات سے ان کی جماعت تحریک لبیک کے کارکنوں کی طرف سے حکومت وقت کے وزارا کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ۔ علامہ خادم رضوی کی جماعت تحریک لبیک کے کارکن محمد عابد نےپاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ کیا ہے ۔ معذرت کے ساتھ لگتا ہے علامہ خادم رضوی نے یقیناًاحادیث نبوی کا مطالعہ نہیں کیا جن میں اس قسم کی بغاوت کے متعلق انتہائی سخت احکامات موجود ہیں ۔ ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات جن کا مفہوم کچھ یوں ہے۔
جس شخص نے میری امت میں بغاوت کی ، نیک اور برے سب لوگوں کو قتل کیا، اس کا مجھ سے اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ( مسلم 1476:3) ایک اورمقام پر روایت موجودہے کہ صحابہ اکرام نے سوال پوچھا کہ یا رسول اللہ اگر فتنہ کے دور میں ہوں اور حکومت وقت صالح نہ ہو تو پھر کیا کریں ۔ تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ پھر بھی تم باغی گروہ سے الگ رہناخواہ تمہیں تاحیات درخت کی جڑیں چبا کر گزارا کرنا پڑہے ( البخاری 1319:3)
ایسا نہیں کہ سب علماء کم علمی کا شکار ہیں ۔ دنیا میں اسلام کاحقیقی تصورپیش کرنے والے علما بھی موجود ہیں ۔ اسی ملک پاکستان میں علم کے اعتبار سے دنیا اسلام میں ایک پہچان رکھنے والے عالم دین ڈاکٹر طاہرالقادری بھی موجود ہیں ۔ جنہوں نے اپنے 14 کارکنوں کے قتل پر معلوم قاتلوں کے خلاف بھی ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دی۔ اور بار ہا مرتبہ میڈیا کے سامنے کہا کہ ہم اسلام اور قانون کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے ۔ ہمیں ایسے علماء کے عمل سے استفادہ کرنا چاہیے ۔یہ ہماری بدقسمتی رہی کہ ہمارے علماء نے علم کے حصول سے منہ موڑ لیا ہے ۔ جس نے بھی چار کتابیں پڑھ لیں اور ایک بار خطابت کیلئے منبر تک پہنچ گیا پھر کتب اور اہل علم کی مجالس سے رشتہ ہی توڑ لیتا ہے ۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ان واضح احکام کے باوجود علامہ خادم کس دین کی بات کرتے ہیں ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ان مولوی حضرات نے احادیث کی کتب کا مطالعہ کیا ہی نہیں ۔ اپنی خطابت کی دوکان کو چمکانے کیلئے اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے خدا کا خوف کرنا چاہیے ۔ اسلام دین امن ہے اور اسلام ہی میں انسانیت کی بھلائی پوشیدہ ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔