آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پاک کی تفہیم

آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پاک کی تفہیم
آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پاک کی تفہیم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورۃ آل عمران:تیسری سورت
سورہ آل عمران، سورہ بقرہ کے بعد بڑی سورۃ ہے۔ اس سورۃ میں حضرت مریم علیہا السلام کے والد عمران کے خاندان کا ذکر ہوا ہے اس لئے اس سورت کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

اس سورت کا شان نزول اہل نجران کے وفد کی مدینہ آمد کا واقعہ ہے۔ 9 ھ اور 10 ھ میں عرب کے مختلف علاقوں سے وفود قبول اسلام یا اسلام کو سمجھنے کیلئے مدینہ منورہ آ رہے تھے، انہی میں نجران کا بھی ایک وفد تھا۔

اہل نجران عیسائی مذہب کے حامل تھے۔ نجران کے عیسائیوں کا وفد رسول پاک ﷺ نے اپنی مسجد نبوی میں ٹھہرایا تاکہ یہ اسلام کو قریب سے دیکھ اور سمجھ سکیں۔ اس سورت میں عیسائیوں کے مروجہ عقائد کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔
سورۃ آل عمران مدنی ہے، اس میں 200 آیات اور 20رکوع ہیں، یہ تیسرے پارے کے نصف سے شروع ہو کر چوتھے پارے کے آخر تک جاتی ہے۔
اس میں سب سے پہلے قرآن کی صداقت کا ذکر ہے کہ تورات اور انجیل کا انکار کرنے والے دنیا میں ذلیل ہو گئے، قرآن کا انکار کرنے والوں کی بھی یہی سزا ہو گی۔ قرآن کی آیات محکمات یعنی جن میں صاف صاف احکامات ہیں ان پر عمل کرنے کی ہدایت ہے اور متشابہات میں غلطاں ہونے کی ممانعت ہے۔ پھر غزوہ بدر کا ذکر ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد کافروں کی نظر میں دو چند دکھلائی گئی۔

کافروں کا مال اور اولاد کچھ بھی کام نہ آیا۔ آل اولاد، مال ودولت، سواریاں اور کھیتیاں وغیرہ دنیوی زندگی کا سامان ہیں اورپرکشش ہیں لیکن اصل ٹھکانا اللہ کے پاس ہے اور وہ جنت ہے جو مومنوں کیلئے ہے۔

ان یہودیوں کا ذکر ہے جو انبیاء علیہم السلام کو اور ان علماء کو قتل کرا دیتے تھے جو صحیح دین پیش کرتے تھے، ایسے لوگوں کے اعمال دین ودنیا میں ضائع کر دیئے جائیں گے اور ان کا یہ خیال کہ وہ (یہود) کچھ دن کیلئے دوزخ میں جائیں گے غلط ہے۔ آخرت میں عمل کے لحاظ سے جزا اور سزا ملے گی۔ اورخدا جس کو چاہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہے حکومت چھین لیتا ہے اور وہ بے حساب روزی بھی دیتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت ہی میں فوزو فلاح حاصل ہو سکتی ہے۔

پھر حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور عمران کی اولاد موسیٰ علیہ السلام کی بزرگی کا ذکر ہے۔ حضرت مریم کی والدہ نے اپنی پہلی اولاد کو اللہ کی نذر کرنے کی دعا کی تھی چنانچہ حضرت مریم کو عبادت کیلئے مخصوص کر دیا۔ زکریا علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے کہ ان کو حضرت یحیٰی علیہ السلام کی ولادت کی بشارت ہوئی حالانکہ بانجھ پن اور کبرسنی کی وجہ سے امید نہیں تھی۔ پھر ارشاد ہے کہ حضرت عیٰسی علیہ السلام خدا کے بیٹے نہیں تھے اور یہود نے حضرت مریم پر جو تہمت لگائی تھی وہ بے بنیاد تھی۔

عیٰسی علیہ السلام کی نیوت، کتاب اور معجزات کا ذکر ہے کہ وہ مٹی کا پرندہ بنا کر خدا کے حکم سے اڑا دیتے تھے۔ اندھے بینا ہو جاتے تھے اور کوڑھی صحیح ہو جاتے تھے لیکن عیسائیوں نے آپ کے ساتھ بداعتقادی اور بدسلوکی روا رکھی بلکہ آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے دشمنوں سے نجات دلانے کا وعدہ فرمایا اور ان کو آسمانوں پر اٹھائے جانے کا ذکر بھی فرمایا۔ نیز آپ کے دشمنوں کو کافر بھی قرار دیا۔ آدم علیہ السلام کے ماں باپ نہ ہونے اور عیسیٰ علیہ السلام کے باپ نہ ہونے میں اللہ کی قدرتِ کاملہ اور اختیار ِتامہ کا دخل ہے۔ یہ واقعات ہی ایسے ہیں اور سچے ہیں۔ اللہ ہی معبود ہے اور وہ مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔اب یہود کو توحید کی دعوت ہے اور یہ کہ ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے اورنہ نصراتی تھے۔ ایسی تفریق مت کرو اور ابراہیم علیہ السلام کی طرح محض مسلمان بن جاؤ۔ اب اہل کتاب کے دو گروہوں کا ذکر ہے۔ ایک خفیہ گروہ یہودیوں کا ہے جنہوں نے یہ سازش کر رکھی ہے کہ پہلے اعلانیہ مسلمان ہو جاؤ، پھر مرتد ہو کر اسلام کی برائیاں بتاؤ۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو لوگوں کی امانت رکھ کر کھا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ غیر یہودیوں کا مال کھا لینا حلال ہے اور قیامت میں اس کا مواخذہ نہیں ہو گا۔حالانکہ اللہ تعالیٰ انہیں نہیں چھوڑے گا اور ضرور سزا دے گا۔

یہودیوں کی ایک شرارت کا ذکر ہے کہ وہ تورات میں تحریف کرتے ہیں اورحق کو چھپاتے ہیں۔ سننے والا یہ سمجھتا ہے کہ ویسا ہی تورات میں ہو گا۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ تمام انبیاء علیہم السلام پر بھی ایمان لائیں، ان میں تفریق نہ کریں اور ایسا بھی نہ کریں کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں کہ ایسا کرنا بھی کفر ہے۔ اب ارشاد ہے کہ جسمانی عبادت کے ساتھ مالی عبادت بھی ضروری ہے کہ زکوٰۃ اور صدقہ خیرات کے ذریعہ اہل حقوق کے حقوق ادا کئے جا سکیں۔ اللہ کی راہ میں ایسی چیز ہرگز نہ دی جائے جو پسند نہ ہو۔ جس طرح گندگی کی صورت میں نماز ادا نہیں ہوتی اسی طرح خراب مال سے زکٰوۃ وخیرات ادا نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کیلئے حکم آتا ہے کہ تفرقہ بازی سے بچیں، اللہ کی رسی (قرآن وسنت) کو مضبوط پکڑیں کہ اسلام وہ نعمت ہے جس نے دشمنوں کو دوست بنایا اورعرب کے دشمن قبیلوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔

تفرقہ بازی سے دنیا میں نامرادی اور آخرت میں سزا ہے۔ اب دنیا میں بہترین امت مسلمان ہیں اور یہ شرافت، دعوت وتبلیغ کی ذمہ داری کی وجہ سے ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کریں اور اس معاملے میں کسی سے نہ ڈریں، نیز دشمنان اسلام کی وفاداری اور وعدوں پر اعتبار نہ کریں۔

اب جنگِ اُحد پر تبصرہ ہے اور تمہید کے طور پر جنگ بدر کا ذکر ہے کہ کفار کے مقابلے میں مسلمان بہت تھوڑے تھے۔ لیکن ان کی ثابت قدمی اور تقویٰ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار فرشتے جن پر جنگی نشانات لگے ہوئے تھے، مدد کیلئے نازل فرمائے اور مومنوں کو قلبی سکون عطا کیا۔ دین کی راہ میں ثابت قدمی پر اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اب جنگِ اُحد کے موقع پر مسلمانوں سے جو غلطی ہو گئی تھی اس پر تنبیہ ہے۔ حضورﷺ نے ایک جماعت کو (تاحکم ثانی) پہاڑ کے پہلو پر متعین فرما دیا تھا، وہ لوگ اور دوسرے لوگ مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے اور یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ حضور ﷺ شہید ہو گئے اس لئے کچھ لوگوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اللہ پاک نے تنبیہ فرمائی ہے کہ تم دین حق کیلئے جہاد کر رہے تھے یا کسی اور کیلئے؟ حضور ﷺ کی عظمت ومحبت اپنی جگہ ہے لیکن کسی وقت تو وہ بھی نہیں رہیں گے تو کیا تم لوگ دین چھوڑ دو گے؟فرمایا گیا کہ جس زمین میں تمہاری موت مقدر ہے وہیں ہو کر رہے گی اوریہ جنگ اللہ کی طرف سے ایک امتحان تھا تاکہ مومن اور منافق کا فرق سامنے آ جائے۔ پھرمنافقین کی ریشہ دوانیوں سے بچے رہنے کی ہدایت ہے اور حضور انور ﷺ کے رحم دل ہونے کی تعریف ہے، نیز آپ ﷺ نے جو بعض لوگوں کی رائے سے ا ختلاف کرتے ہوئے مدینہ سے باہر جنگ کی تھی اس پر آپ ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ ﷺ مشورہ ضرور فرمائیں لیکن جو رائے آپ ﷺ کے نزدیک صائب ہو اسی پر اللہ کے بھروے پر عمل فرمائیں۔پھر بخل کی مذمت ہے کہ قیامت میں وہ مال جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے روک لیا گیا ہے آگ کا طوق بنے گا۔ راہ خدا میں خرچ کرنا جہاد کیلئے بھی ہے جس کی ذمہ داری مسلمانوں پر ہے اور دین کی سربلندی کیلئے جان ومال دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اہل کتاب کی ان شرارتوں کا ذکر ہے جو وہ مسلسل کرتے آئے ہیں۔ مثلاً پیغمبروں کا قتل ان کا شیوہ رہا ہے۔

اہل حق پر مشرکین کے مظالم کا ذکر ہے۔ آخرت کی فلاح کیلئے اسلامی زندگی ہی ضروری ہے اور اسلام پر خاتمہ بھی ہو۔ دنیا کے معاملات کو خوش اسلوبی سے ضرور انجام دینا چاہئے لیکن دنیا کی محبت نہ ہو اور دنیا میں رہ کر آخرت کی فلاح کیلئے سارے کام ہوں۔ اہل کتاب نے دنیا پرستی ہی کی وجہ سے تورات میں تحریف کی تھی اور حق کو چھپانے کی کوشش کی تھی۔

کائنات میں پھیلی ہوئی کتنی نعمتیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی قدرت ظاہر ہوتی ہے اور ان سے توحید کا سبق حاصل ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی چیز بیکار پیدا نہیں کی گئی تو انسان جو اشرف المخلوقات ہے، کیا بے مقصد پیدا کیا گیا ہے؟ آخر میں ہم کو دعائیں سکھائی گئی ہیں جن سے صبر، ہمت اتفاق اور اتحاد کا سبق ملتا ہے۔ ٭

مزید :

رائے -کالم -