مہنگائی اور بے روزگاری

موجودہ معاشی حالات ملک کی آبادی کے بڑے طبقے کے لئے ناقابل برداشت ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن ان ہی حالات میں ایک مخصوص و محدود طبقہ جو چاہتا ہے، کر گزرتا ہے۔
گزشتہ ایک سال سے پاکستان کے ذرائع ابلاغ ابتلا کے دور میں ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ صورت حال کا سامنا وسائل سے محروم اور مختصر تن خواہ پر کام کرنے والوں کو ہے۔
ذرائع ابلاغ ہی نہیں بلکہ صنعتی اداروں میں بھی لوگوں کی تن خواہیں کم کی جارہی ہیں اور ان کے اوقات کار میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ کچھ بولنے یا تبصرہ کرنے سے معذور لو گ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ کوئی سننے والا نہیں ہے۔ کوئی داد رسی کا امکان نظر نہیں آتا ہے۔
گزشتہ روز ہی پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پیمرانے نئے ٹی وی چینلوں کے لائسنسوں کے اجراء کے لئے نیلامی کی۔ 47 نئے چینلوں کے لائسنس جاری کئے جارہے ہیں۔
ایک ایک لائسنس کی بولی 28کروڑ روپے بھی لگی۔ کیا کسی نے ان سرمایہ کاروں سے سوال کیا کہ ان کے پاس پیسے کا کیا حساب ہے۔ کتنا ٹیکس ادا کیا جاتا ہے وغیرہ۔ کیا موجودہ معاشی حالات میں نئے چینلوں کی گنجائش موجود ہے؟ پاکستان میں اشتہارات کی مارکیٹ ماضی کے مقابلے میں کئی گنا محدود ہو چکی ہے۔ موجودہ چینلوں میں اخراجات میں کٹوتی کی مہم جاری ہے۔ اب تو کسی چینل کے لئے اہم بنیادی ملازم کیمرہ مین بھی فارغ کئے جارہے ہیں۔
رپورٹروں سے موبائل فون سے ویڈیو حاصل کی جائے گی۔ اس سے قبل کئی شہروں میں آپریشن ہی بند یا محدود کئے جا چکے ہیں۔ رپورٹروں اور کیمرا مینوں کے سروں پر ہر وقت ایسی تلوار لٹک رہی ہے جو کسی وقت کسی پر بھی گر سکتی ہے۔ کئی کئی سالوں سے کام کرنے والوں کو ایک ٹیلی فون پر ایک ایک منٹ میں فارغ کر دیا جا رہا ہے۔
نہ کوئی تحریری اطلاع دی جاتی ہے اور نہ ہی فارغ کئے جانے والوں کو کوئی مدت دی جاتی ہے۔ لوگ بھی عدالتوں کا رخ کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں صرف یہ بات ہوتی ہے کہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
مالکان کے ذہنوں میں یہ بات سما ء گئی ہے کہ کس طرح وہ کم سے کم خرچ میں چینل چلا سکتے ہیں۔ خرچہ کم سے کم ہو اور منافع زیادہ سے زیادہ ہو۔ یہ وہ رجحان ہے جو دیگر صنعتی اداروں کے مالکان میں پھل پھول رہا ہے۔
یہ صورت حال اتنی خراب ہے کہ ملازمین کا ذہنی سکون غارت ہو گیا ہے۔ دوسر ی طرف پیمرا نئے لائسنسوں کی نیلامی کر رہی ہے۔ جن اداروں کو لائسنس جاری کئے جاتے ہیں انہیں پیمرا اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے تو پابند کرتا ہے لیکن ملازمین کے لئے کوئی ضابطہ ہی موجود نہیں ہے۔ پاکستان محنت کشوں کے لئے ایک ایسا ملک بن گیا ہے جہاں کسی بھی ادارے میں ملازمین کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔ حالانکہ صنعتی اداروں پر مختلف قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔
محکمہ لیبر تمام صوبوں میں موجود ہے لیکن افسران بوجوہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ملازمت کے مواقع اتنے محدود ہیں کہ ایک ایک ملازمت کے لئے بیک وقت درجنوں بلکہ سینکڑوں امیدوار ہوتے ہیں جو ملازمت کے حصول کے لئے تمام شرائط پوری کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔
قوانین موجود ہیں لیکن ان کاا طلاق نہیں ہوتا۔ بازاروں کے حالات دیکھ لیں۔ سبزیوں، دالوں، دودھ، دہی وغیرہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافوں کی بھر مار ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ڈالر مہنگا ہو گیا ہے، اس کے اثرات ہیں، اب کہا جارہا ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے اس لئے قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
کیا ڈالر یا پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہر اجناس اور اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں پر ا ثر انداز ہو تا ہے؟ ما ضی میں صوبائی حکومتیں ضلعی انتظامیہ کے ذریعہ قیمتوں پر نظر رکھتی تھیں، ان کی قیمت مقرر کی جاتی تھی جس کی وجہ سے ناجائز منافع خوروں کو پابند کیا جاتا تھا کہ مقررہ قیمت سے زیادہ نرخ پر اشیاء فروخت نہیں کی جاسکتی تھیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران ضلعی انتظامیہ کہیں بھی کوئی کارروائی نہیں کر سکی۔ صارفین کی شکایت سننا تو دور کی بات ہے لیکن انتظامیہ بازاروں اور قیمتوں پر آخر نظر کیوں نہیں رکھتی؟ کیا ہر دوکاندار او ر تاجر کو آزادی حاصل ہے کہ جس قیمت پر چاہے اپنا سامان فروخت کرے برصغیر ہو یا دنیا کے دیگر ممالک، حکومتیں اشیائے خور دونوش پر نظر رکھتی ہیں۔
من مانے اضافہ یا ناجائز منافع خوری کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ بادشاہوں کے دور میں تو ناجائز منافع خوروں کو سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے ادوار سب ہی کو آزادی حاصل ہے۔
ایسی آزادی جو عام لوگوں کے لئے آزاری کا سبب بن رہی ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کا یہ کہنا کہ مہنگائی صرف پاکستان کا مسلہ نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں بڑھ رہی ہے۔
ان کی اس بات میں وزن اس لئے نہیں ہے کہ پاکستان میں حکومتی اعداد و شمار کہیں کچھ ہیں، کہیں کچھ؟ فی کس آمدنی کی شرح نہایت کم ہے، ایسے ممالک میں جہاں شرح آمدنی بہتر ہوتی ہے۔ مہنگائی برداشت کی جا سکتی ہے لیکن پاکستان میں اشیاء کی قیمت میں اضافہ عام صارفین کے لئے ناقابل برداشت ہے۔