”ستر سال کی کرپشن“ فیشن، تاریخ سے بے خبری، تجاہل عارفانہ یا شا طر نہ سیاست؟
تجزیہ؛۔قدرت اللہ چودھری
موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے کورس کے انداز میں کہا جا رہا ہے کہ 70سال سے ملک کو لوٹا جا رہا ہے، ہر کہ و مہ کے منہ میں جو آتا ہے کہہ دیتا ہے، ان سیاسی نابالغوں کی زبانیں بھی کترنی کی طرح چلتی ہیں جنہیں ملک کی تاریخ کا سرے سے علم ہی نہیں، نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ کب کون حکمران تھا اور ملک، مسائل کے گرداب میں کب پھنسا، کیوں پھنسا اور کس نے پھنسایا۔ بس ایک گردان کی جارہی ہے کہ ملک کو 70سال سے لوٹا جارہا ہے کیا اس طرح سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنا مقصود ہے یا لوگوں کی توجہ آج کے گھمبیر مسائل سے ہٹا کر ماضی کے حکمرانوں کو مطعون کرنے کا شغل، اس لئے اپنایا گیا ہے کہ آج جو بدحواسیاں مسلسل ہو رہی ہیں ان کی طرف لوگوں کی توجہ نہ جائے، آج کے تجزیئے میں 70سال کی کرپشن کے فسانے کا تذکرہ مقصود ہے، ملک کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناحؒ اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تھے۔ اس دور میں ملک کا جو پہلا ہی بجٹ پیش کیا گیا وہ سرپلس تھا، حالانکہ وسائل محدود تھے، پاکستان کو اس کے حصے کے جو اثاثے اور نقد رقوم ملنی تھیں وہ روک لی گئی تھیں، یہاں تک کہ بھارت میں گاندھی کو اس مقصد کے لئے مرن برت رکھنا پڑا کہ پاکستان کو اس کا حق کیوں نہیں دیا جارہا۔ اس کے بعد بھی بھارتی حکمرانوں نے ڈنڈی مار کر پاکستان کے حصے کی ادائیگی کی اس کے باوجود سرپلس بجٹ بنا لینا اس وقت کے مسلم لیگی حکمرانوں ہی کا کارنامہ تھا۔ کوئی قرضہ لیا گیا نہ آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ چھوٹا بڑا کوئی کشکول نہیں تھا حکمرانوں کا وقار اتنا تھا کہ بیک وقت امریکہ اور روس وزیراعظم پاکستان کو اپنے اپنے ملکوں کے دورے کی دعوت دے رہے تھے۔ کیا لیاقت علی خان پر کرپشن کا کوئی داغ تھا؟ کیا ان پر کوئی شخص بقائمی ہوش و حواس کرپشن کا الزام لگا سکتا ہے۔ وہ نواب ابن نواب تھے، لیکن پاکستان میں کوئی جائیداد الاٹ نہیں کرائی، جب وہ 16اکتوبر 51ء کو لیاقت باغ میں شہید ہوئے تو کوئی بینک بیلنس نہ تھا پھٹی ہوئی بنیان شیروانی کے نیچے پہنی ہوئی تھی، کہا جاسکتا ہے کہ 51ء تک کسی حکومتی عہدیدار پر کرپشن کا کوئی الزام نہ تھا، ان کے بعد خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بنے۔ جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور وہ بھی پاکستان بنانے والی قیادت میں شامل تھے، کسی نے آج تک ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگایا۔ ایوب خان یہ تو کہتے تھے کہ وہ قوت فیصلہ سے محروم ہیں لیکن کرپشن کا الزام لگانے کا حوصلہ انہوں نے بھی کبھی نہیں کیا، ان کے بعد محمد علی بوگرہ وزیراعظم بنے، کسی نے ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا، پھر چودھری محمد علی آگئے جو بیورو کریٹک پس منظر اور انتہائی اعلیٰ کیرئر رکھتے تھے، آج تک کرپشن کا کوئی الزام ان پر نہیں لگا، ان کے دور میں وزیراعظم ہاؤس میں باورچی اور خانساماں کے طور پر خدمات انجام دینے والے گواہ ہیں کہ وزیراعظم کی ہدایت تھی کہ گھر میں سب سے سستی سبزی پکائی جائے، مونگ کی دال مستقل پکتی تھی، کسی میں محمد علی پر کرپشن کا الزام لگانے کی جرات ہے تو سامنے آئے اور کرپشن کا کوئی ایک واقعہ ہی بیان کردے۔ محمد علی کے بعد وزارت عظمیٰ حسین شہید سہروردی کے حصے میں آئی، کیا کوئی ان کو کرپٹ کہنے کی جسارت کرسکتا ہے پھر مختصر عرصے کے لئے اسماعیل ابراہیم چندریگر (آئی آئی چندریگر) وزیراعظم بنے، ان پر بھی کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ ملک فیروز خان نون تو بڑے جاگیردار تھے اور اپنی وضع کے عالی شان سیاستدان تھے، گوادر کو انہوں نے اپنی خداداد بصیرت کے ذریعے پاکستان کا حصہ بنایا، پاکستان کی سرحدیں ایک ہی بار وسیع ہوئی تھیں اور یہ ملک فیروز خان نون کا دور تھا، ملک غلام محمد گورنر جنرل تھے تو ان کا حقیقی بیٹا کراچی میں الگ فلیٹ میں رہتا تھا، گورنر جنرل پر سیاسی سازشوں کا الزام تو لگتا رہا، جوڑ توڑ بھی کرتے رہے لیکن کرپشن کا کوئی الزام ان پر نہیں لگا، سکندر مرزا انگریز دور کی بیورو کریسی سے تعلق رکھتے تھے۔ بہت سے سرکاری عہدوں پر رہے، گورنر جنرل بننے سے پہلے سیکرٹری دفاع تھے پھر صدر بن گئے۔ ان پر بھی سیاسی سازشوں کا الزام تو ہے ملک میں پہلا مارشل لا بھی انہوں نے لگایا، آئین بھی انہوں نے منسوخ کیا، لیکن کرپشن کا کوئی الزام ان پر نہیں لگا، جب انہیں صدارت سے معزول کرکے جلاوطن کیا گیا تو کچھ عرصے کے بعد انہوں نے اپنی مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے پنشن کی ادائیگی کے لئے رجوع کیا تو ایوب خان نے سفارش کی کہ انہیں پنشن جلدی ادا کی جائے کیونکہ جو شخص صدر پاکستان رہ چکا ہے اسے ایسی مشکلات درپیش نہیں ہونی چاہئیں۔کیا کوئی کرپٹ پنشن کے لئے اس طرح درخواستیں دیتا پھرتا ہے؟ اس بات کا تذکرہ ایوب خان نے اپنی سوانح حیات ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ میں کیا ہے۔
سیاست دانوں کے اس 11سالہ دور میں پاکستان پر کوئی قرض نہیں تھا اور اگر تھا تو بہت معمولی، روپے کی قدر مستحکم تھی، پہلے پہل تو ایک روپے کا ایک ڈالر مل جاتا تھا یحییٰ خان کے دور تک ساڑھے تین روپے کا ڈالر تھا، 58ء تک سیاست دانوں کے پورے عہد میں خسارے کا ایک بھی بجٹ پیش نہیں کیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ ان سب سیاستدانوں کا پختہ یقین تھا کہ اپنے وسائل میں رہ کر زندگی گزارنی چاہئے اور چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں۔
وزیراعظم عمران خان نے ابھی چند روز پہلے ایک بار پھر ایوب خان کے دور کی ترقی کی تعریف کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ قرض ان کے دور میں تیزی سے چڑھنا شروع ہوا اور گندھارا جیسے ادارے ان کے دور میں کس بات کی علامت گردانے جاتے تھے، اس لئے اگر ایوب خان کے دور میں کرپشن تھی تو بھی اس کا ذکر عمران خان کو کرنا چاہئے تھا، معلوم نہیں ”70سال کی کرپشن“ کے افسانے کون گھڑ رہا ہے اور کون پھیلا رہا ہے۔ حالانکہ اس دور میں کرپشن کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، جن کے دور میں ڈالر 150روپے کو چھو رہا ہے اور ریکارڈ قرضے لئے جارہے ہیں ان کو 47ء سے لے کر 58ء تک کے دور کو پیش نظر رکھ کر بات کرنی چاہئے۔
شاطرانہ سیاست