سنگین جرائم کی تفتیش میں تاخیر پرسنسنی خیز رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش
اسلام آباد(این این آئی)پولیس سنگین جرائم کی تفتیش کیوں نہیں کر پاتی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی پولیس کی رپورٹ پبلک کر دی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی پولیس کی رپورٹ کو درخواست میں تبدیل کر کے سماعت کے لئے مقرر کرنے کا حکم(بقیہ نمبر10صفحہ6پر)
دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آئینی عدالت ان انکشافات پر آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی۔ بدھ کو دور ان سماعت رپورٹ میں بتایاگیا کہ لیبارٹری کو بھجوانے کے لیے شواہد کی پانچ ہزار روپے پارسل فیس تفتیشی افسر کو ادا کرنی پڑتی ہے، شواہد کی پارسل فیس نہیں ہونی چاہیے یا ادائیگی کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ لے۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ جائے وقوعہ کے نقشہ بنوانے کیلئے پندرہ ہزار روپے تفتیشی افسر ادا کرتا ہے، ایسا طریقہ کار واضح ہو کہ قتل یا دہشتگردی کے کیسز کا دو دن میں نقشہ بن جائے، گرفتاری کے لیے چھاپہ مارنے کے لئے بھی پولیس کو فنڈز فراہم نہیں کئے جاتے۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ شواہد کو لیباریٹری معائنے کے لئے بھیجنے میں دو ماہ تک کا عرصہ لگ جاتا ہے، حکام بالا کی منظوری کے بغیر ہی شواہد فرانزک لیب کو بھیجنے کا اختیار تفتیشی افسر کو ملنا چاہیے، رپورٹ کے مطابق مدعی مقدمہ بھی کیس رجسڑڈ ہونے کے بعد تفتیش میں تعاون نہیں کرتے،اسلام آباد میں فرانزک لیب کا نہ ہونا بھی تفتیش میں تاخیر کی وجہ ہے، فرانزک لیب کی بھاری فیس بھی تفتیشی افسر جیب سے ادا کرتا ہے، رپورٹ کے مطابق ٹرائل میں تاخیر کی چھ بنیادی وجوہات ہیں، پولیس اہلکاروں کی اسپیشل ڈیوٹیاں بھی عدالتوں میں پیش نہ ہونے کی بنیادی وجہ ہیں۔رپورٹ میں کہاگیاکہ امن و امان اور وکلا کی ہڑتالیں بھی ٹرائل میں تاخیر کی وجہ ہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہاکہ آئی جی پولیس کی رپورٹ میں عوامی مفاد کے کئی اہم نقاط کی نشاندہی کی گئی ہے۔ عدالت نے کہاکہ سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر سمیت سب اس کیس میں فریق ہوں گے،رجسٹرار آفس اس رپورٹ کو درخواست میں تبدیل کر کے فوری سماعت کیلئے مقرر کرے۔
سنسنی خیز رپورٹ