مضبوط و مستحکم ادارے شفاف انتخاب کے ضامن
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انتخابی اصلاحات پر مشاورت کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو ایوانِ صدر آنے کی دعوت دی ہے۔یہ دعوت دیتے ہوئے انہوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ اس معاملے میں صدارتی آرڈیننس اِس لئے لایا جا رہا ہے کہ اگر الیکٹرانک ووٹنگ کی طرف جانا ہے تو وقت کم ہے،الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں بیلٹ پیپر نہیں ہو گا،اس سسٹم میں بیلٹ پیپر موجود ہے،دوسرے ممالک میں اسے ختم نہیں کیا گیا۔امریکہ، فلپائن میں ایسا ہوتا رہا اِس وقت بھی بھارت، برازیل، بلجیم، کانگو میں یہ سسٹم چل رہا ہے،دُنیا کے تیس فیصد ممالک نے اسے اپنایا ہوا ہے، بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم1985ء سے چل رہا ہے،ان کا کہنا تھا کہ2017ء کے الیکشن ریفارمز ایکٹ میں بائیو میٹرک شناخت کی بات رکھی گئی تھی، بائیو میٹرک سسٹم سے اصل ووٹرز کی شناخت ہو گی، الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم میں مشین سے انتخابی نشان پر بٹن دبا کر پرچی نکالی جائے گی، فزیکل بیلٹ پیپر حتمی نتائج کے لئے شمار ہوں گے،جتنے بھی اجلاس ہوئے ہیں ان میں الیکشن کمیشن کے نمائندے آئے ہیں اس کا بیڑا بھی وہی اٹھائے گا،جبکہ لیگل کمیٹی قانونی ایشوز کو دیکھے گی۔میرا کام سب کو اکٹھا کر کے ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرانا ہے، فیصلہ پارلیمینٹ کرے گی۔ 3لاکھ23ہزار مشینیں بنانی ہیں، سب کی مشاورت سے معاملہ حل ہو جائے تو یومیہ ایک ہزار مشینیں بنائی جانی ہیں۔ اس مشین کی ہیکنگ نہیں ہو سکتی، یہ تو سسٹم بہتر ہو رہا ہے، صدر علوی نے یہ باتیں ایک نیوز چینل کے ساتھ انٹرویو میں کہیں۔
جناب صدر سے پہلے انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت جناب وزیراعظم نے ایک ٹویٹ کے ذریعے دی تھی، جو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ(ن) نے جوابی ٹویٹ ہی میں مسترد کر دی،اس کے بعد وزیر اطلاعات نے اعلان کر دیا کہ اپوزیشن نہیں آتی تو نہ آئے حکومت آرڈیننس لائے گی اور اس آرڈیننس کے نفاذ کے بعد آگے بڑھے گی،اب اس کا مسودہ تیار ہو چکا،کابینہ اس کی منظوری دے چکی اور حکومت جب چاہے اس کا نفاذ کر دے گی۔اب اپوزیشن جماعتیں صدر کی دعوت منظور کرتی ہیں یا وزیراعظم کی طرح رد کر دیتی ہیں یہ تو پتہ چل جائے گا،لیکن اس موقع یہ سوال تو اپنی جگہ ہے کہ حکومت الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹنگ پر اتنی بضد اور اتنی عجلت میں کیوں ہے؟ اس ”میگا پراجیکٹ“ کے ساتھ کہیں ضمنی مفادات تو وابستہ نہیں،جو چین نہیں لینے دیتے،کیونکہ یہ کوئی آسمانی حکم نہیں ہے کہ ضرور اگلے انتخابات ہی میں مشینیں زیر استعمال آ جانی چاہئیں یا پھر یہ کہ اِدھر مشینیں آئیں اُدھر دھاندلی کے سارے الزامات حرفِ غلط کی طرح مٹ گئے۔صدر مملکت نے بھارت کی مثال دی کہ وہاں مشینیں 85ء سے استعمال میں ہیں، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ36 سال گذرنے کے باوجود کتنے فیصد انتخابی حلقوں میں مشینوں کا استعمال ہو رہا ہے اور کتنے فیصد حلقے ایسے ہیں جہاں اب بھی روایتی بیلٹ پیپر ہی کے ذریعے الیکشن ہوتا ہے۔پھر بھی نتیجہ قبول کیا جاتا ہے جسے شکایت ہو وہ ٹریبونل جاتا ہے۔بھارت جو سفر ایک تہائی صدی سے بھی زیادہ مدت میں مکمل نہیں کر سکا ہم اسے ایک ہی جست میں طے کرنا چاہتے ہیں، دُنیا میں بہت سے مُلک ایسے ہیں جو ٹیکنالوجی میں ہم سے کوسوں آگے ہیں،لیکن وہاں بھی الیکشن ابھی تک روایتی طریقوں ہی سے ہوتا ہے،بہت سے ترقی یافتہ ممالک آج بھی مشینوں کے بغیر صاف شفاف انتخابات کراتے ہیں اور کوئی ان پر انگلی نہیں اٹھاتا،جن دو چار ممالک کی مثالیں صدر صاحب نے دیں اُن میں خاص طور پر کانگو کا نام لیا۔ گویا ہم اگر الیکٹرانک مشین کے دور میں داخل ہو گئے تو کم از کم اس سلسلے میں کانگو کی برابری کا دعویٰ کر سکیں گے۔
اصل میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم آج تک انتخابات کا اعتبار قائم نہیں کر سکے،اِس ضمن میں ہم نے جو بھی اقدامات کئے وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے،اور بعض صورتوں میں تو نتیجہ الٹ نکلا،حتیٰ کہ ہم نے بعض ایسے عجوبہ اقدامات بھی کر دیکھے جو پوری مہذب دُنیا میں بہت زیادہ مستعمل نہیں، مثلاً ہمارے ہاں انتخابات کے لئے باقاعدہ ایک نگران حکومت بنائی جاتی ہے،جس کے لئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسا وزیراعظم سامنے لایا جاتا ہے عام حالات میں جو ایسے منصب کی تمنا ہی کر سکتا ہے، یا پھر ایسے ریٹائرڈ بزرگوں کو ”دریافت“ کیا جاتا ہے جو عمر رسیدگی کے باعث زیادہ متحرک زندگی نہیں گذار رہے ہوتے اور اپنا زیادہ وقت پوتے پوتیوں کو بہلانے میں صرف کرتے ہیں، پھر بھی جب ایسا سال خوردہ وزیراعظم انتخاب کرا دیتا ہے تو اس پر الزامات کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے، نتیجہ نہیں مانا جاتا،35پنکچروں کے افسانے تراشے جاتے ہیں،لیکن جب الزامات کی تحقیقات ہوتی ہے تو تحقیقات کرنے والوں کے سامنے ایسی کوئی افسانوی کہانی رکھی ہی نہیں جاتی۔دُنیا میں کتنے ایسے مُلک ہیں جہاں الیکشن کے لئے خصوصی طور پر نگران حکومتیں بنائی جاتی ہوں، کیا امریکہ، برطانیہ، بھارت،جرمنی، فرانس،ایران، ترکی،ملائشیا وغیرہ میں کہیں ایسا ہوتا ہے، ان ممالک میں انتخابات ہمیشہ وہی حکومتیں ہی کراتی ہیں، جو برسر اقتدار ہوں اس کے باوجود حکمران ہار جاتے ہیں۔صدر ٹرمپ اس کی تازہ ترین مثال ہیں جو ہار گئے اور مضبوط نظام کے سامنے اُن کی دال نہ گلی اور وہ پوری ذلّت و خواری کے ساتھ ایوانِ صدر سے اس حالت میں رخصت ہوئے کہ کسی آنکھ میں اُن کے لئے نمی نہ تھی،اُن کے اقدامات پر اُن کے خلاف دوسری مرتبہ کانگرس میں مقدمہ چلایا گیا۔ برطانوی وزیراعظم جو خود الیکشن کراتے ہیں، ہارتے ہوئے دیکھے گئے ہیں،ہمارے بہت سے دوسرے تجربات کی طرح نگران حکومت کا تجربہ بھی بُری طرح ناکام ہوا۔2013ء اور 2018ء کے الیکشن نگران حکومتوں نے کرائے۔ اول الذکر عمران خان اور پیپلزپارٹی نے مسترد کر دیئے اور آخر الذکر مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے۔ اس استثنا کے ساتھ کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو ان صوبوں میں کوئی دھاندلی نظر نہ آئی جہاں وہ جیت گئے، آج بھی جو ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں انہیں کوئی ہارنے والا مان نہیں رہا، ان سب مسائل کا حل ہم نے نظام اور قوانین کو مضبوط کرنے اور اس پر صدق دلی سے عمل کرنے کی بجائے کسی جادوئی الیکٹرانک مشین میں تلاش کیا ہے اور کہہ رہے ہیں کہ امریکہ میں ٹرمپ کا دھاندلی کا الزام اِس لئے نہ چل سکا کہ وہاں مشینوں سے انتخاب ہوتا ہے، اس سے بڑی غلط فہمی کوئی نہیں، دھاندلی کے الزامات کا تیا پانچہ کسی مشین نے نہیں امریکہ کے مضبوط انتخابی نظام اور اداروں نے کیا،مضبوط تر عدلیہ بھی اس کریڈٹ کی شریک ہے، ٹرمپ اپنا کمزور مقدمہ جہاں جہاں لے کر گئے اداروں نے اٹھا کر ان کے منہ پر دے مارا،حتیٰ کہ کئی ریاستوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی انسانی ہاتھوں سے ہوئی،اِس لئے مشینیں نہیں، مضبوط ادارے اور مضبوط قوتِ ارادی کے مالک ذمے دار حکام انتخابی شفافیت کی ضمانت ہیں۔2018ء کا انتخاب تو نتیجے والی مشینوں کو بند کر کے جیتا گیا تھا آج تک کوئی ذمے دار ادارہ اِس کا جواب نہیں دے سکا، دھاندلی کے الزام کی تحقیقات کے لئے جو پارلیمانی کمیشن بنا تھا اس نے بھی بقول کسے دھیلے کا کام نہیں کیا،ورنہ شاید اِس سوال کا جواب بھی مل جاتا،اِس لئے ہمیں مشینوں کے سحر سے مسحور ہونے کی بجائے مضبوط ادارے بنانے چاہئیں جو شفافیت پر یقین بھی رکھتے ہوں اور اس کا صاف شفاف مظاہرہ کر کے دکھا بھی سکتے ہوں ورنہ دعوے تو بہت ہیں دعوؤں کو آزمائش کی کسوٹی پر بھی پورا اترنا چاہئے۔