چشمے سے آوارہ ہو کر بہہ نکلنے والے پانی نے جا بجا کیچڑ کر رکھا تھا جس میں پاؤں پھسلتے تھے

چشمے سے آوارہ ہو کر بہہ نکلنے والے پانی نے جا بجا کیچڑ کر رکھا تھا جس میں پاؤں ...
چشمے سے آوارہ ہو کر بہہ نکلنے والے پانی نے جا بجا کیچڑ کر رکھا تھا جس میں پاؤں پھسلتے تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط :67
شاعرانہ راستہ اور ضدِ شرقی :
اسے راستہ کہنا تو شاعرانہ مبا لغہ تھا کیوں کہ وہاں کوئی راستہ تھا ہی نہیں۔ چوں کہ خاک سار ٹوٹے پھوٹے شعر بھی کَہہ لیتا ہے اس لیے یہ مبالغہ کرنا اس کا حق ہے ۔ ہماری شاعری کا سارا حسن ہی انتہائی جھوٹ پر مبنی تشبیہات ،مبا لغہ کی آخری حد پر پہنچے استعاروں اور گنجلک انداز ِ بیاں میں پنہاں ہے۔ مثلا ً اگر اردو شاعر اپنے محبوب کی شان میں کہے کہ، 
”سر پہ فلک، ہاتھ میں دُم دار ستارہ
کس شان سے جاتا ہے محبوب ہمارا“
 تو اردو شاعری کے مزاج اور معاشرتی تاریخ سے ناواقف قاری ہر گز نہیں جان سکتا کہ شاعر کا محبوب درا صل گھروں سے غلا ظت جمع کر نے والی بھنگن ہے جس کے سر پر رکیک ا نسانی فضلے سے بھراا نتہائی متعفن ٹو کرا ہے جس کےلئے ”فلک“اور ہاتھ میں مذکورہ غلاظت سمیٹنے والا اور اسی سے لتھڑا ہوا جھا ڑو ہے جس کےلئے ”د ُم دار ستارہ“ کاا ستعارہ استعمال کیا گیا ہے۔
 فلسفہ و مضامین بر طرف، اردو شاعری میں غالب کی وجہ ِشہرت یہی معمّہ سازی بنی۔گنجینہمعنی کا طلسم کھولتے کھولتے قاری کا دماغ اینٹھ جاتا ہے۔نئی نسل جب اردو دیوان میں ایسے اشعار پڑھتی ہے کہ :
شمار ِ سبحہ مرغوب ِ بت ِ مشکل پسند آیا
تماشائے بیک کف بردن ِصد دل پسند آیا
توشعر کا مطلب سمجھ آئے نہ آئے مسلمانوں کے زوال کی وجہ آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے۔ اردو، فارسی شاعری سے اس کی لاتعداد مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ہماری ساری ذہانت زبان کے چٹخارے اور لسّانی پیچیدگی کی یہی دیمک چاٹ گئی ۔ ایک مثال عرض کرتا ہوں جس سے قاری کو میری بات سہولت سے سمجھ آجائے گی۔ فارسی کا ایک شعر ہے:
بہ تقلیب و بہ تردیف و بہ تجنیس
زِ روئے یار خواہم ضد ِ شرقی
اس معمے کو سلجھانے اور سمجھانے سے پہلے اس کا لفظی ترجمہ کر دوں جو کچھ یوں ہے کہ ”صنعت ِ تقلیب ، صنعت ِ تردیف اور صنعت ِ تجنیس کی مدد سے میں محبوب کے چہرے سے مشرق کی ضد چاہتا ہوں۔“ اب ذہین اور طبّاع قاری کا فرض ہے کہ وہ دنیا کے سارے دھندے چھوڑ کر سنیاس لے لے اور کسی غار میں بیٹھ کر سوچتا رہے کہ ”مشرق کی ضد“ کا کیا مطلب ہوا ؟ شاعر اسے کیوں چاہتا ہے ؟اور کپڑے ، لوہے کی منافع بخش صنعتوں کو چھوڑ کر ان فضول صنعتوں سے کیوں مدد کا خواہاں ہے؟
 ہمارے ہاں ایسے ایسے شاعر پائے جا تے ہیں جنہوں نے شراب پینا تو کجا کباڑیے کے پاس پڑی خا لی شراب کی بو تل بھی نہیں دیکھی ہو تی لیکن ہر دوسرے شعر میں مے خا نے میں اودھم مچاتے اور ساقی سے دست و گریبان ہو تے پائے جاتے ہیں۔ عشق ا ور انقلاب تو خیر بہت ہی misused اور فرسودہ الفاظ ہیں۔ ایک کپ چائے کےلئے قصیدہ کہنے والوں کی شاعری سے انقلاب اس طرح ٹپکتا ہے جیسے رس گُلے سے شیرہ۔ ہماری عدالتوں کے علاوہ جتنا جھو ٹ شاعری میں محبوب اورمشاعرے میں داد کے نام پر بولا جاتا ہے اتنا کہیں اور نہیں بولا جاتا ۔
اب فیس بُک کی شکل میں جھوٹ کا ایک اور اڈّا وجود میں آ گیا ہے جہاں لوگ ہر پو سٹ کو اندھا دھند like کرتے چلے جاتے ہیں اور ہر واہیات تصو یر کے نیچے ”wow, awsome, nice “لکھ دیا جاتا ہے۔ اس کا تلخ تجربہ مجھے یوں ہوا کہ ایک روز میں نے اپنا کالم upload کیا ہی تھا کہ اس پر تین چار like آگئے، حا لاں کہ اتنے وقت میں کوئی آدمی صحیح طرح کالم کا عنوان بھی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ و جہ صرف اتنی ہے کہ ہم مبالغے کو خوبصورتی سمجھتے ہیں، بقول شخصے مبالغہ آ میز سچائی بھی جھو ٹ ہی کی ایک قسم ہو تی ہے۔ایسے کسی مبالغہ آمیز بیان پر مقرر کو ٹوکنے کےلئے طارق بوسال ایک جملہ بولا کرتے ہےں ”ذرا میٹھا گھٹاؤ!“ مگر کیا کیجیے ہمارے ہاں سیاست، شاعری اور مذہب میں اس ”میٹھے“ کا بے دریغ اور بے محا با استعمال ہوتاہے۔ 
اس لیے اگر میں لمبے لمبے کانٹوں سے بھری خشک گنجان جھاڑیوں سے اٹے اورپتھروں سے پٹے اوبڑ کھا بڑ مقام کو راستہ کَہہ رہا ہوں تو اسے شاعرانہ تعلّی سمجھ کر معاف کر دیجیے کیوں کہ اردو میں ایسے راستے کےلئے کو ئی لفظ نہیں ہے جو حقیقت میں راستہ ہی نہ ہو۔کا نٹوں سے بچنے اور جھا ڑیوں کے بیچ پاؤں رکھنے کےلئے مسلسل نیچے دیکھنا پڑتا تھا۔ چشمے سے آوارہ ہو کر بہہ نکلنے والے پانی نے جا بجا کیچڑ بھی کر رکھا تھا جس میں پاؤں پھسلتے تھے۔ اس لیے ہم سامنے یا اوپر یا اردگرد دیکھنے کے بجائے شریف آدمیوں کی طرح مجبوراً نگاہیں نیچی کیے چل رہے تھے۔ ایسے میں راستے کاتعین کر نے کےلئے وہی سراغ ہمارے کام آرہا تھا جو ایسی جگہوں پرمسافروں کے کام آتا ہے یعنی بھیڑوں اور گدھوں کی لید، جو وہ اس راہ سے گزرتے ہوئے جگہ جگہ گرا تے جاتے ہیں۔ یہ ہری ہری گیندیں بتا تی تھیں کہ مستعمل راستہ یہی ہے۔ ہمارے راہنماؤں سے تو یہ گدھوں اور بکروں کی لیدہی اچھی تھی جو منزل کا کو ئی سراغ تو دیتی تھی، ورنہ سیاسی راہنماؤں کے پیچھے چلتے چلتے قوم، ہر قدم پر منزل ِ مراد سے دور ہوتی جاتی ہے!
احمدعلی ، عرفان اور چیمہ سب سے آ گے جا چکے تھے، عثمان حق ِ دوستی نباہتے ہو ئے بلال کے ساتھ چل رہاتھا جو ٹانگ کی معذوری کی وجہ سے تیز نہیں چل سکتا تھا۔ ندیم اور اعظم میرے ساتھ تھے۔تھوڑا فا صلہ طے کرنے کے بعد مشکلات یعنی خار دار جھا ڑیاں ختم ہو گئیں اور کھلا علاقہ آگیا۔ چاروں طرف خشک اور بنجر پہاڑ تھے۔ زمین پر بھی کہیں کہیں خودرُوجھاڑیوں کے سوا کوئی روئیدگی نہیں تھی۔ صبح کے چھ، ساڑھے چھ بج چکے تھے اور دھوپ سارے میں پھیل چکی تھی جس سے فضا کی خنکی اُ ڑ گئی تھی اور ہوا خوشگوار لگنے لگی تھی۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔