”دولت اور اقتدار……امتحان ہے“
چند روز قبل سوشل میڈیاپر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس کے مطابق لاہور میں فیروزپور روڈ پر ایک سفید رنگ کی لینڈ کروزر سے دونوجوان نکل کر ایک کار سوار پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ پہلے لوہے کے سَریوں کے ساتھ کار کی ونڈ سکرین کو توڑتے ہیں پھر زبردستی کار کا دروازہ کھول کرکار سوار پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔اتنے میں مجمع لگ جاتا ہے۔لوگ پولیس کو کال کرتے ہیں۔ وہ”بہادر سُورما“جوچند لمحات پہلے تنہا مسافر کو اس کی ”غلطی پر سبق سکھانے“ کے درپے تھے، پولیس کا سامنا کرنے کی بجائے،لوگوں کے روکنے کے باوجود،بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔بڑی گاڑی کے پچھلے شیشے چونکہ سیاہ ہیں اس لیے اندازہ نہیں لگایا جا سکتاکہ پیچھے کون بیٹھا ہے اور کتنے لوگ ہیں۔اتنے لوگوں میں خوف کے سائے تلے فردِ واحد کی بے بسی اور مسلح لوگوں کے ”فر عونی تیور“رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں۔کتنا اچھا ہوتا، سڑک پر کار سوار کی وجہ سے اگر انہیں کوئی دشواری پیش آئی تھی تو مہذب لہجے میں اس سے بات کر لی جاتی،اس سے شکوہ کر لیا جاتا۔مگربعد کی اطلاعات کے مطابق ان کے لئے ایساکرنا سرے سے ہی ناممکن تھا،کیونکہ وہ ایسی سیاسی شخصیات کے کارندے تھے جنہوں نے تھوڑے وقت میں خوشحالی کا سفرچھلانگیں لگا کر طے کر لیا تھا اور اب وہ کئی دہائیوں سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔شاید اس”ادنیٰ سی خطا“پر کوئی ان کی پوچھ گچھ نہ کرتا،مگر مضروب کاتعلق اس حساس ادارے سے ہے جس کے جوان وطن کے لئے ہر وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہیں۔اورمضروب خودسیاہ چین جیسی مشکل ترین بلندیوں پر وطن کی حفاظت میں جگراتے کاٹ چکا ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ جن کی خاطر اس نے اپنی زندگی دشمن کے نشانہ پر رکھی ہوئی ہے،انہوں نے اُسے اپنے ہی شہر میں اپنے نشانہ پر رکھ لیا۔
میرے ایک محترم دوست جو پچھلے پچیس سالوں سے پیشہ ئ صحافت سے وابستہ ہیں۔اُن کے ایک مراسلہ میں سے چند سطور برائے مطالعہ پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔”کوئی دس سال قبل میں دفتر سے فارغ ہو کراپنی مہران گاڑی پر گھر جا رہا تھا۔رات دس بجے کا وقت تھا اور میرے گھر تک تین کلومیٹر کی مسافت باقی تھی۔میرے آگے چار بڑی گاڑیاں پوری سڑک کو اپنے قبضہ اختیار میں لیے خراماں خراماں جار ہی تھیں۔میں پریشان تھا کہ سڑک اتنی کھلی ہے پھر بھی یہ لوگ مجھے کیوں نہیں گزرنے دے رہے۔میں نے ہارن بجایا توایک ڈبل کیبن میں سوار چار اسلحہ برداروں نے مجھ پر بندوقیں تان لیں،جیسے میں نے راستہ مانگ کر ان کے بنیادی حقوق میں مداخلت کی ہو۔میں سہم گیا اور گاڑی آہستہ کر لی۔کھوج پر پتہ چلا کہ علاقے کا ”جگا“اپنے قافلے کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔میرا ہارن بجانایاراستہ مانگنااس کے لئے ہتک ِ عزت کے مترادف تھا۔خدا کا شکر ہے کہ مجھے اُس نے صبر دیا وگر نہ میں آج معذوری کی زندگی گزاررہاہوتا“۔
مذکورہ مبنی بر حقائق واقعات سے مماثل کتنے ”سانحات“ آئے روز ہماری آنکھوں کو عذابِ دید سے دوچارکرتے رہتے ہیں۔دراصل اقتدار کا نشہ انسان کے اندر اُن ”خصائل ارفع“کو پروان چڑھاتا ہے،جہاں وہ خود کو عام انسانوں سے بلند تر مخلوق سمجھنے لگتا ہے۔کبھی وہ قارون کی صورت میں اور کبھی شداد کی شکل میں ”جلوہ افروز“ہوتا ہے،تو کبھی اپنے والد کو گوالیار کے قلعہ میں گیارہ سال تک بے بسی اورکسمپرسی کے عالم میں سگے بیٹے کے ہاتھوں قید ِمذلّت سے”نوازتا“ ہے،جہاں پر اقتدار اوردولت یکجا ہو جاتے ہیں،وہاں دوسرے انسانوں کی حیثیت چیونٹی سے بڑھ کر نہیں رہ جاتی۔دولت اور اقتدار کی آمیزش کے کارہائے نمایاں ہمیں انفرادی سطح سے لے کرعالمی سطح تک عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔
وطنِ عزیز میں انتخابات ہوتے ہیں،حکومتیں تشکیل پاتی ہیں۔صاحبِ ثَروت منتخب لوگ مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوجاتے ہیں۔اگر کوئی بڑی جماعت اتفاقاًعددی کمی کے باعث بظاہر اقتدار تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے تو دولت کے ”جائزتکنیکی“استعمال سے وہ اپنی عددی اقلیت کو اکثریت میں بدل لینے کی ”مطلوبہ سہولت“ سے باآسانی فیض یاب ہو جاتی ہے۔پاکستان کی سرزمین بانجھ قطعاً نہیں ہے کہ یہاں معاشرتی،معاشی،سماجی اور سیاسی پختگی رکھنے والے ذہین لوگ جنم نہیں لیتے۔ایسے لوگوں میں پاکستان خود کفیل ہے مگر اُن کی تمام تر صلاحیتیں اُن کا منہ چڑاتی ہیں۔جب ایسے نابغہئ روزگار لوگ انتخابات میں بطورِ امیدوار ملک کی قسمت سنوارنے میں حصہ ڈالنے کا ارادہ کرتے ہیں تو انہیں کبھی بھی منزل تک پہنچنے نہیں دیا جاتا۔
آج وطن ِ عزیز نوحہ کناں ہے کہ جن کے لئے مجھے حاصل کیا گیا تھا،وہ کبھی بھٹیوں میں ایندھن کے ساتھ جلا دیے جاتے ہیں،کبھی سڑکوں پر گاڑیوں سے نکال کر گولیوں سے بھون دیے جاتے ہیں کبھی عینی شاہدین کے سامنے گاڑی کے پہیوں تلے مسل دیے جاتے ہیں اور کبھی آہنی ہتھیاروں سے لہو لہان کر دیے جاتے ہیں۔مگرتمام تر واقعاتی شواہد ہونے کے باوجود”عدم گواہی“ کے باعث عمر بھر اپنی بے بسی کے زخم چاٹنے کے سواان کا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
مسندِ اقتدارپر براجمان دولت مند یہ جان لیں کہ جس کے خزانوں کی چابیاں اونٹوں پر لا دی جاتی تھیں،جہان چھوڑ گیا،جس نے دولت اور اقتدار کے نشہ میں خدا کے مقابلہ میں جنت تعمیر کرڈالی اسے جنت کے دروازہ کے اندر قدم رکھنے کی توفیق نہ ہو سکی۔ وطن ِ عزیز پر پے در پے اقتدار کی کمند ڈالنے والے کچھ دیارِ غیر میں دفن ہوئے،کچھ کو دفن ہونے کے لئے اپنا سالم وجود بھی میسر نہ ہو سکا۔اس سے پہلے کہ اقتدار اور دولت مل کر بھی چند ساعتیں خرید کر دینے سے معذرت کر لیں،ایدھی کی طرح دلوں پر راج کرنا سیکھ لیں۔امجد ثاقب بن کر بے سہارا اور بے یارومددگار لوگوں کی آس بندھائیں۔مگر یہ تبھی ممکن ہے جب اقتدار اور دولت کے نشہ کو اپنے اوپر سوار کرنے سے پہلے جاگ جائیں،اور اسے اپنے لیے امتحان سمجھیں۔ کاش ہم مسند اقتدارسنبھالتے ہی ”جو میرانہیں ہے“سے مکمل آگاہی حاصل کر لیں،اورجو جس کا ہے صرف اس پر خرچ کریں،تبھی وطن ِ عزیزاپنے مقصودِ تخلیق کو پاسکتا ہے۔