بلاول کی بہتر کارکردگی، اعتراض غیر مناسب!

بلاول کی بہتر کارکردگی، اعتراض غیر مناسب!
بلاول کی بہتر کارکردگی، اعتراض غیر مناسب!

  


اسلام آباد میں آج عوامی جمہوریہ چین کے وزیر خارجہ چن گانگ اور پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ تزویراتی حکمت عملی کے چوتھے مرحلے کے مذاکرات ہوئے۔ دونوں ممالک کے وفود بھی شریک تھے۔ دونوں وزیر خارجہ بھارت کے شہر گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے بعد اسلام آباد پہنچے ہیں چینی وزیر خارجہ کے چار روزہ دورے کا اعلان بھی گوا میں ہوا اس سے بھارتی حکام کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری چینی وزیر خارجہ کی آمد سے پہلے ہی واپس اسلام آباد آ گئے اور انہوں نے دفتر خارجہ آمد پر معزز مہمان کا استقبال کیا تھا اس کے علاوہ افغانستان کے نائب وزیر خارجہ کی قیادت میں طالبان حکومت کا بھاری بھرکم وفد بھی اسلام آباد  آیا ہے۔ اس کی آمد پاک چین اور افغانستان کے سہ فریقی مذاکرات کے حوالے سے ہوئی اور تینوں ممالک میں اہم امور کے حوالے سے گفتگو ہو گی۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ گوا (بھارت) کے حوالے سے تحریک انصاف کے راہنماؤں کے علاوہ بعض دوسری جماعتوں نے بھی تنقید کی اگرچہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گوا جانے کی مخالفت نہیں کی تھی۔ لیکن فواد چودھری نے اپنے ذمہ عائد فرض ادا کیا اور سخت تنقید کی تھی وہ یہ بھول گئے کہ بلاول ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے ہیں (فواد چودھری کا اپنا گہرا تعلق بھی رہا تھا) کشمیر اور بھارت کے حوالے سے ان کا موقف بالکل واضح رہا اور اب بلاول نے بھی اس سے سرمو انحراف نہیں کیا بلکہ اپنے آباء کی یاد تازہ کر دی جب بھارتی سرزمین پر بیٹھ کر بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو کرارے جواب دیئے اور پاکستان کے اصولی موقف کا اعادہ کیا۔ فواد چودھری اور معترض حضرات کو گوا کانفرنس کے انعقاد اور بلاول کی واپسی کا انتظار کر لینا چاہئے تھا تاکہ وہاں ان کے عمل کے حوالے سے تعریف و تنقید ہوتی اب حالات نے جو رخ اختیار کیا اس سے بلاول تعریف کے مستحق ٹھہرے، اگرچہ سینٹ میں تحریک انصاف کے دو معزز حضرات قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم اور چودھری اعجاز نے ناروا باتیں بھی کیں اور جواب میں اپنی جماعت کے چیئرمین کے حوالے سے سن لیا۔
میں نے یہ سب اس لئے دہرایا کہ پاکستان میں تہذیب کا جنازہ جس حد تک نکل چکا اس سے قومی مفاد اور موقف بھی متاثر ہوتا ہے۔ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا بلکہ قومی امور کے حوالے سے ہمیشہ اتفاق رائے کا مظاہرہ کیا گیا۔ 1965ء کا ذکر کروں تو وہ انتہائی اہم موڑ تھا ایوب خان صدر تھے اور وہ محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں دھاندلی سے ہرا چکے تھے۔ متحدہ اپوزیشن اور ان کے درمیان تعلقات نہیں تھے لیکن 6 ستمبر 65ء کو جب پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو متحدہ اپوزیشن والے خود چل کر ایوب خان کے پاس گئے اور ان کو مکمل ترین تعاون کا یقین دلایا۔


اس کے بعد دوسرا اہم موقعہ جولائی 72ء میں آیا جب ذوالفقار علی بھٹو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لئے شملہ (بھارت) گئے انہوں نے روانگی سے قبل پوری اپوزیشن کو اعتماد میں لیا اور اپوزیشن نے بھی ان کی مکمل حمایت کی اور پھر بھٹو شملہ معاہدہ کر کے لوٹے اس کی وجہ سے بھارت کے زیر قبضہ پاکستانی علاقہ واپس ہوا تو چورانوے ہزار جنگی قیدی (سویلین+فوجی) بھی رہا ہو کر واپس آئے۔ لیکن بدقسمتی سے اب یہ وقت آ گیا جب قومی اہمیت کے مسئلہ پر بھی لڑائی ہوتی ہے۔ حالانکہ میں وثوق سے کہتا ہوں کہ کشمیر اور بھارت کے مسئلہ (تنازعہ) پر کوئی جماعت بھی قومی پالیسی سے انحراف نہیں کر سکتی اور بلاول نے بھی ایسا نہیں کیا میری خواہش تھی کہ بارہ سال بعد کسی پاکستانی راہنما کا بھارت جانا اہم واقعہ ہے اس لئے بہتر ہوتا کہ اپوزیشن سے بھی مذاکرات ہوتے اور جانے سے قبل مفاہمت نظر آتی لیکن ایسا نہ ہو سکا تاہم بلاول نے حق ادا کر دیا اور بھارت میں بیٹھ کر قومی موقف ہی دہرایا۔


بلاول بھٹو پر بہت اعتراض ہیں ان کی عمر اور تجربے پر بھی تنقید ہوتی ہے لیکن انہوں نے اپنے دفتر خارجہ کے تعاون سے شنگھائی تعاون تنظیم کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو خوبی سے نبھایا کہ اس تنظیم کا روح رواں چین ہے اور پاکستان کو رکنیت بھی چین ہی کے باعث ملی تھی۔ بلاول بھٹو نے نہ صرف جانے سے قبل واضح کیا بلکہ وزیر خارجہ کانفرنس میں اپنی تقریر میں بھی واضح کر دیا کہ شنگھائی تنظیم مختلف فورم ہے۔ انہوں نے چین کی جس قدر تعریف کی یقیناً بھارتی ہل گئے ہوں گے جیسے بلاول بھٹو کے ان فقروں نے پٹرول کا کام کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور فیصلوں کی خلاف ورزی عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے بظاہر مسکرا کر ہاتھ ہلایا تاہم اپنے خیالات میں دہشت گردی کے حوالے سے الزامات کی بوچھاڑ کی۔ بلاول بھٹو نے کانفرنس کو متاثر کئے بغیر گواہی میں پریس کانفرنس کی اور واپسی سے قبل شنکر صاحب کی ٹھکائی کر دی اور اپنے موقف کو واضح کیا کانفرنس والی تقریر میں (تحریری تھی) ڈپلومیٹک الفاظ تھے لیکن پریس کانفرنس میں انہوں نے کھلے بندوں بہت واضح طور پر بھارتی طرز عمل پر کھل کر تنقید کی اور ترکی بہ ترکی جواب دیا انہوں نے واضح کر دیا کہ پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ روابط کا حامی ہے اس لئے گیند بھارت کے گول میں ہے اسے بات چیت کا دروازہ کھولنے کے لئے کشمیر کے حوالے سے 5 اگست کے متنازعہ فیصلے کو واپس لینا ہوگا بلاول نے دہشت گردی کے الزام کے جواب میں مثالیں دے کر واضح کیا کہ بھارت خود دہشت گرد ہے اور بی جے پی نے اقلیتوں کا رہنا دشوار کیا ہوا ہے اور یوں وہ سرخرو ہوئے ہیں لیکن افسوس کہ ملک کے اندر ابھی یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ بھارت سب کا بیری ہے اور پاکستان کا قومی موقف مشترکہ ہونا چاہئے۔


یہ سب بتاتے ہوئے بعض یادیں بھی ذہن پر دستک دینے لگتی ہیں شملہ روانگی سے قبل ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور ایئرپورٹ پر جلسہ بھی کیا اور اجتماع سے پر جوش خطاب کیا تقریر کے اختتام پر انہوں نے اپنا کوٹ اتار کر مجمع میں اچھال دیا جلسہ میں موجود جیالوں نے اس کے ٹکڑے کر کے سنبھال لئے تھے اور ایک مرتبہ دورہ بھارت کے دوران میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شملہ بھی گیا ہم نے شملہ میں وائسرائے کی رہائش جو لاج کہلاتی تھی(جو اب عجائب گھر ہے) اور وہ مقام بھی دیکھا جہاں شملہ معاہدہ پر دستخط ہوئے تھے۔ دونوں مقام اہم ہیں پہلے والے کے ایک کمرے میں متحدہ ہندوستان کے دور میں گول میز کانفرنس ہوئی اور گورنر ہاؤس میں شملہ معاہدہ ہوا تھا میں نے اپنے بھارتی سینئر صحافی دوستوں سے یہ دریافت کرنے کی کوشش کی تھی کہ شملہ مذاکرات ناکام ہوئے وفود واپس ہو رہے تھے کہ بھٹو کی درخواست پر اندرا گاندھی اور ان کے درمیان علیحدگی میں ملاقات ہوئی اور پھر شملہ معاہدہ ہو گیا تھا، کوئی بتا سکتا ہے کہ اندر کیا کچھڑی پکی تھی سب حضرات نے قیافے ہی لگائے لیکن اصل بات کا کسی کو علم نہیں تھا جیسے ہم بھی یہاں قیاس کے گھوڑے دوڑاتے ہیں اور شملہ معاہدہ کی شقوں پر غور نہیں کرتے۔
دعا ہے کہ اب سیاسی رہنماؤں کو اگر پھر سے کچھ وقت ملا ہے تو جوش پر ہوش غالب آ ہی جائے گا اور مذاکرات ہوں گے جس کے بعد ملک میں امن و استحکام آئے گا۔

مزید :

رائے -کالم -