علامہ محمد اقبالؒ                   (2)

May 07, 2024

ڈاکٹر فوزیہ تبسم

 1913ء میں مسجد کی شہادت کے سلسلے میں کانپور آگئے اور خواجہ حسن نظامی کے ہمراہ کانپور کے کلکٹر سے ملاقات کی۔ مشہور طنزومزاح نگار شاعر اکبر الٰہ آبادی سے الٰہ آباد میں ملاقات کی۔ 1914ء میں سردار بیگم سے دوسری شادی کی اور 9نومبر کو ان کی والدہ امام بی بی کا انتقال ہوگیا۔ 1915ء میں آپ کی فارسی مثنوی اسرارِخودی شائع ہوئی جس میں عجمی فلسفے پر سخت نکتہ چینی کی گئی۔ خصوصاً حافظ شیرازی پر آپ کے تبصرے نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچادی۔ مخالفت سے قطع نظر  مثنوی نے اقبال کے مربوط فلسفے کو عالمی ادب میں اہم مقام پر لاکھڑا کیا۔ 1918ء میں رموزِخودی کی اشاعت ہوئی اور 1919ء میں وہ ”انجمن حمایت اسلام“ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 1920ء میں ڈاکٹر نکلسن کی طرف سے اسرارِخودی کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا۔ 1922ء میں اقبال پر سب سے پہلی کتاب "A Voice from the East" شائع ہوئی جس کے مصنف نواب ذوالفقار علی خان ہیں۔ 1923ء میں حکومت برطانیہ کی طرف سے ”سر“ کا خطاب ملا۔ صوبہ پنجاب کے گورنر لارڈمیکلیگن نے جب علامہ اقبال کو ”سر“ کا خطاب دینے کی پیشکش کی تو علامہ اقبال کا جواب بڑا دلچسپ تھا۔ انہوں نے یہ شرط عائد کردی کہ پہلے میرے استاد کو شمس العلماء کا خطاب دیا جائے۔ جب علامہ سے سوال کیا گیا کہ آپ کے استاد نے کوئی کتاب لکھی ہے تو علامہ نے برملا کہا: میں ان کی ایک زندہ کتاب ہوں۔ 

1924 میں انجمن حمایت اسلام کے جنرل سیکرٹری اور بعد ازاں صدر کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔ بانگ درا بھی اسی سال شائع ہوئی اور آپ کے بیٹے جاوید اقبال کی ولادت ہوئی۔ 21اکتوبر کو تیسری بیوی مختاربیگم کا لدھیانہ میں انتقال ہوگیا۔ 1926 میں مجلس قانون ساز پنجاب کے ممبر منتخب ہوئے تو آپ کو پہلے کی نسبت زیادہ قریب سے حکومتی ایوانوں کو دیکھنے کا موقع ملا اور سرکاری پالیسیوں سے براہِ راست آشنائی ہوئی ان کے سیاسی کیرئیر میں یہ ایک اہم سنگ میل تھا۔ اسی سال علامہ اقبال پر پہلی کتاب ”اقبال“ مولوی احمدالدین وکیل کی لکھی شائع ہوئی۔ 1927 میں زبورِعجم شائع ہوئی۔ 1928 میں دہلی آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں شرکت کے بعد جنوبی ہند کے سفر پر روانہ ہوئے۔ 1929 میں سلطان ٹیپو کے مزار پر حاضری دی اور حیدرآباد دکن میں نظامِ دکن سے ملاقات کی۔ پنجاب ہائی کورٹ میں بطور جج تقرری نہ ہوسکی اُس کی وجہ سرشاری لال کی مخالفت تھی۔ 

دسمبر میں علی گڑھ کا سفر کیا اور 1930 میں علامہ اقبال کے والد گرامی شیخ نور محمد بھی انتقال کرگئے اور اسی سال انگریزی خطبات کا مجموعہ The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam شائع ہوئی آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں جو کہ الٰہ آباد میں منعقد ہوا علیحدہ اسلامی مملکت کا تصور پیش کیا۔ 

1931 میں دہلی میں منعقد آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں شرکت کی۔ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن روانگی۔ ان کانفرنسز کی اقبال کی سیاسی زندگی میں حیثیت مسلّم ہے کیونکہ آپ کی قائدانہ صلاحیتیں اجلاسوں میں نمایاں ہوکر سامنے آئی تھیں۔ گول میز کانفرنس کے بعد 22نومبر1931 میں آپ اٹلی میں مسولینی اور ڈاکٹر سکاریا سے ملے مسولینی اپنے عہد کا ایک مطلق العنان آمر تھا۔ وہ اقبال کے افکار سے بہت متاثر ہوا اور اقبال نے بھی سفرِ اٹلی سے تعلیمی معاملات میں خاصا فیض حاصل کیا۔ اٹلی کے بعد آپ نے مصر کا سفر کیا اور محمدحسین ہیکل سے ملاقات کی اور فلسطین بھی گئے۔ 28دسمبر کو بمبئی واپس آئے اور عطیہ فیضی سے ملاقات کی۔ 1932 میں موچی دروازہ باغ میں منعقدہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کی صدارت کی اور 17اکتوبر تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن کا سفر کیا۔ آپ کی کتاب ”جاویدنامہ“ بھی اسی سال شائع ہوئی۔ 1933 میں دوسری گول میز کانفرنس کے بعد اقبال پیرس میں اس دور کے معروف فلسفی برگساں سے ملے۔ اقبال کے نظریہئ وقت پر برگساں کے اثرات نمایاں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ جنوری میں ہسپانیہ پہنچے تو آپ مسجد قرطبہ کی زیارت کے لیے بھی گئے اسپین کی زبوں حالی دیکھ کر اقبال بہت رنجیدہ ہوئے۔ آپ ہسپانیہ کو مسلمانوں کی روایات کا امین خیال کرتے تھے اور ان کے بقول اسپین کی فضا میں خاموش اذانیں گونج رہی تھیں۔ مسجد قرطبہ کی زیارت سے آپ پر بہت گہرا روحانی اثر ہوا اور آپ کے افکارونظریات میں زندگی کی بے مائیگی اور عشق کی قوت نمو کے خیالات کو پہنچنے کا موقع ملا۔ 

20اکتوبر کو نادرشاہ کی دعوت پر افغانستان کا سفر کیا اُن کے ساتھ سیّدسلمان ندوی اور سر راس مسعود بھی تھے۔ آپ کو مسلمانوں کے تاریخی مقامات اور قدیم ثقافت کو دیکھنے کا موقع ملا اور ہندوستان کے سیاسی حالات کے تناظر میں افغانستان کے حالات کو پرکھنے کا بھی موقع ملا۔ اسی سال پنجاب یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔ 

10جنوری 1934 کو عیدالفطر کے دن اقبال نے شدید سردیوں میں سویوں پر دہی ڈال کر کھالیا۔ آپ کا گلا بیٹھ گیا اور طویل علالت کا آغاز ہوگیا۔ اگرچہ بعدازاں آپ نے بہت سے حکماء و اطباء سے علاج کروایا مگر خاطرخواہ افاقہ نہ ہوا۔ 

1935 میں ”بالِ جبریل“ شائع ہوئی۔ علامہ بھوپال میں برقی علاج کے لیے روانہ ہوئے۔ نواب حمیداللہ خان نے اسی سال پانچ سو روپے کا وظیفہ جاری کیا اور بدقسمتی سے اسی سال علامہ اقبال کی شریک سفر اور جاوید اقبال کی والدہ 23مئی کو انتقال کرگئیں۔ 

25اکتوبر کو حالیؔ کے صدسالہ جشن ولادت میں شرکت کی۔ 1936 میں آپ قائداعظم سے ملے اور آپ کو پنجاب مسلم لیگ کا صدر مقرر کیا گیا۔ 1937 میں آپ نے علالت کے باعث انجمن حمایت اسلام کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ 9جنوری 1938 میں انٹرکالجیٹ برادر ہُڈ کے زیراہتمام لاہور میں ”یوم اقبال“ منایا گیا۔ 

21 اپریل کو صبح 5:15 بجے اقبال نے داعی اجل کو لبیک کہا اور برصغیر کے مسلمانوں کو سوگوار اور روتادھوتا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے اپنے ابدی گھر چلے گئے۔ 

مزیدخبریں