سنی اتحاد کی مخصوص نشسیں دوسروں کو دینے کا فیصلہ معطل
اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک ، نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست سماعت کےلئے منظور کر لی اور مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔واضح رہے 14 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کےخلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کےلئے دائر اپیل پر سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔وفاقی حکومت نے لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ کیس آئین کے آرٹیکل 185 کے تحت اپیل میں سن رہے ہیں، موجودہ کیس آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر نہیں ہوا۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا ابھی تو اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ ہونا ہے، قابل سماعت ہونا طے پا جائے، پھر لارجر بینچ کا معاملہ بھی دیکھ لیں گے۔ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا۔مخصوص نشستوں پر نامزد خواتین ارکان اسمبلی کی جانب سے بھی بینچ پر اعتراض کر دیا گیا۔وکیل خواتین ارکان اسمبلی نے عدالت کو بتایا یہ آئین کے آرٹیکل 51 کی تشریح کا مقدمہ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کیس 5 رکنی بینچ سن سکتا ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے بھی تین رکنی بینچ پر اعتراض کر دیا گیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا اپیلیں لارجر بینچ ہی سن سکتا ہے۔عدالت نے بینچ پر اعتراض مسترد کر دیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ابھی تو ابتدائی سماعت ہے، اس سٹیج پر تو دو رکنی بینچ بھی سماعت کر سکتا ہے۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا پی ٹی آئی کے آزاد جیتے ہوئے اراکین اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سات امیدوار تاحال آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کا حصہ ہیں؟۔جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کیا پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے؟۔فیصل صدیقی نے مو_¿قف اپنایا پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے صرف الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آزاد اراکین کو کتنے دنوں میں کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا آزاد اراکین قومی اسمبلی کو تین روز میں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں تو کیا اس کے امیدوار نمائندگی کے حق سے محروم ہو جائیں گے؟۔فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمانی جماعت بن سکتی ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہ لے اور آزاد جیتے ہوئے اراکین اس جماعت میں شمولیت اختیار کر لیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا سیاسی جماعتوں کے درمیان مخصوص نشستوں کی تقسیم کس فارمولے کے تحت ہوتی ہے، سیاسی جماعت کیا اپنی جیتی ہوئی سیٹوں کے مطابق مخصوص نشستیں لے گی یا زیادہ بھی لے سکتی ہے؟۔فیصل صدیقی نے بتایا کوئی سیاسی جماعت اپنے تناسب سے زیادہ کسی صورت مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہمیں عوامی مینڈیٹ کی حفاظت کرنی ہے، اصل مسئلہ عوامی مینڈیٹ ہے، جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا سیاسی جماعت کو جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا قانون میں کہاں لکھا ہے بچی ہوئی نشستیں انہی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی، ہمیں پبلک مینڈیٹ کی حفاظت کرنی ہے اصل مسئلہ پبلک مینڈیٹ کا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا قانون میں کہاں لکھا ہے کہ انتخاباتی نشان نہ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا یہی سوال لے کر الیکشن سے قبل میں عدالت گیا تھا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ایک بات تو طے ہے جس جماعت کی جتنی نمائندگی ہے اتنی ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے یہ کیسے ممکن ہے کسی کا مینڈیٹ کسی اور کو دےدیا جائے؟ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوری طور پر الیکشن کمیشن حکام کو طلب کر لیا اور سماعت میں 11 بج کر 30 منٹ تک وقفہ کر دیا۔کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اور ڈی جی لا الیکشن کمیشن عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ایک سوال ہے کیا بانٹی گئی نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں، دوسرا یہ کہ مخصوص نشستیں اس لیے بانٹی گئیں کہ ہاو_¿س پورا ہو، اس میں کہاں غلطی ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کسی امیدوار نے سیاسی جماعت جوائن نہیں کی تھی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آزاد امیدواروں کی نشستیں دیگر جماعتوں کو بانٹی جاسکتی ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا آئین پاکستان کا آغاز بھی ایسے ہی ہوتا ہے عوامی امنگوں کے مطابق امور انجام دیئے جائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کیا دوسرے مرحلے میں مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے اگر مزید کچھ سیٹیں بچ جائیں ان کا کیا کرنا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا سیاسی جماعتیں اپنے تناسب سے تو نشستیں لے سکتی ہیں، باقی نشستیں انہیں کیسے مل سکتی ہیں؟ کیا باقی بچی ہوئی نشستیں بھی انہیں دی جاسکتی ہیں؟ قانون میں ایسا کچھ ہے؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا اگر قانون میں ایسا نہیں تو پھر کیا ایسا کرنا آئینی اسکیم کےخلاف نہیں؟۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کیا الیکشن کمیشن نے سوموٹو اختیار سے بچی ہوئی نشستیں دوبارہ انہی جماعتوں کو نہیں دیں؟۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا جو کام ڈائریکٹ نہیں کیا جاسکتا وہ ان ڈائریکٹ بھی نہیں ہوسکتا، ایک سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کو ان ڈائریکٹ طریقے سے نظر انداز کرنا کیا درست ہے؟۔وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا سیاسی جماعت کا مطلب ہوتا ہے، وہ جماعت جو انتخابی نشان پر الیکشن لڑے، پارٹی کو رجسٹرڈ ہونا چاہئے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے بغیر معقول وجہ بتائے مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹی گئیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا مجھے صرف بات مکمل کرنے کےلئے 6 سیکنڈ دیئے جائیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا ہم آپ کو 60 گھنٹے دینے کو تیار ہیں، ہم کیس کو سماعت کےلئے منظور کر رہے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہم کیس کو سماعت کےلئے منظور کر رہے ہیں، ہم الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو معطل کر رہے ہیں، تاہم فیصلوں کی معطلی اضافی سیٹیں دینے کی حد تک ہو گی۔بعد ازاں، سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں سماعت کےلئے منظور کر لیں اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت کا حکمنامہ جاری کر دیا،جسمیں بتایا گیا تین رکنی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست سماعت کیلئے منظورر کر لی ہے اور درخواست کی سماعت کیلئے لارجر بنانے کا معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا گیا،بعد ازاںالیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے لاءونگ کو بھیج دیا۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں اجلاس ہوا، جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مشاورت کی گئی۔الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے لاءونگ کو بھیج دیا، لاءونگ سپریم کورٹ کے فیصلے کا تفصیلی جائزہ لے گا۔ قانونی ٹیم سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لے کر الیکشن کمیشن کو رپورٹ دے گی۔مخصوص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے کہا ہے سپریم کورٹ نے ہمیں کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا۔نجی ٹی وی کے مطابق ترجمان قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے کہا سپر یم کورٹ نے اس کیس میں ہمیں کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا، مخصوص نشستوں پر بعد میں 23 اراکین نے حلف لیا تھا اس حوالے سے نوٹیفیکیشن الیکشن کمیشن کی طرف سے موصول ہوا تھا۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ترجمان نے کہا اب بھی ان اراکین کو معطل کرنے کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن سے آنا ہے جیسے ہی الیکشن کمیشن کوئی حکم یا نوٹیفیکیشن بھجواتا ہے تو اس پر عمل ہوگا۔
سپریم کورٹ فیصلہ