اردوان کی مقبولیت؟

اردوان کی مقبولیت؟
اردوان کی مقبولیت؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ترکی کے حالیہ اور اسی سال کے دوسرے پا رلیمانی انتخابات پر پوری دنیا کی توجہ مرکوز رہی۔خطہ کی انتہا ئی مخدوش اور پیچیدہ صورت حال اور اس پر صدر اردوان کی پالیسیوں کے باعث امریکہ، یورپ، روس اور عرب ممالک کیلئے یہ ممکن ہی نہیں کہ ترکی کے ان انتخابات کو اپنی توجہ کا مرکز نہ بنا یا جا ئے۔ ان انتخابات پر دُنیا بھر کے اخبا رات اور نیوز چینلز کی بھر پور کوریج اس توجہ کا ہی ایک اظہا ر تھا۔ ان انتخا بات میں ترکی کی حکمران جما عت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پا رٹی (اے کے پا رٹی) کی مقبولیت کا تعین ہونا تھا، کیونکہ اس سے پہلے اسی سال 7جون کو ترکی کے پا رلیمانی انتخابات میں ’’ اے کے پارٹی‘‘ واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ہنگ پا رلیمنٹ ہی کے باعث ایک مرتبہ پھر پا رلیمانی انتخابات کا انعقا د کیا گیا۔ ۔ اس مرتبہ حکمران جماعت ’’اے کے پا رٹی‘‘ 49.4 فیصد ووٹ لے کر 550کل نشستوں میں سے316نشستیں لینے میں کا میا ب رہی، جبکہ 7جون کے انتخابات میں ’’ اے کے پارٹی‘‘ بمشکل 41 فیصد ووٹ حاصل کر کے صرف 258 نشستیں ہی حاصل کر سکی تھی۔ تاہم ترکی کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ کی کل 550نشستوں میں سے آئین میں ترمیم کرنے کیلئے 367 نشستوں کی ضرورت ہو تی ہے۔یا کسی انتہا ئی اہم ایشو (نظام حکو مت کی تبدیلی وغیرہ) پرریفرنڈم کروانے کیلئے کم از کم 330نشستوں کی ضرورت ہو تی ہے اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ابھی بھی ’’اے کے پا رٹی ‘‘کے پاس محض اپنے دم پر آئین میں ترمیم کرنے کے لئے مطلوبہ تعداد نہیں ہے۔اردوان نے جون کی طرح اس مرتبہ بھی پارلیمانی انتخابا ت سے پہلے یہ اعلان کیا کہ’’ اے کے پارٹی‘‘ اکثر یت حاصل کرنے کے بعد آئین میں ترمیم کر کے صدر کو ہی اختیا رات تفویض کرے گی۔ طیب اردوان نے 2002,، 2007ء اور پھر 2011ء میں اپنی جما عت ’’ اے کے پارٹی ‘‘کو اپنے دم پر اکثر یت دلاکر گیا رہ سال تک وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالے رکھا ۔گز شتہ سال اگست میں وہ ترکی کے صدر منتخب ہو گئے ۔آئینی اعتبا ر سے ترکی میں صدر کا عہدہ علا متی نو عیت کا ہی ہو تا ہے، مگر اردوا ن نے نہ صرف حکومتی اختیارات کا بھرپور استعمال کرنا شروع کر دیا، بلکہ ان انتخابات میں کھلم کھلا اپنی جماعت کے لئے مہم بھی چلا ئی۔

ان انتخابات میں دوسرے نمبر پر مصطفی کمال اتاترک کے سیکو لر نظر یہ کی علمبردار جما عت ریپبلکن پیپلز پارٹی(سی ایچ پی) 134(جون میں 131) نشستیں، ترک قوم پرست جما عت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) 40 (جون میں(80 اور کردوں کے حقوق کی علمبردار جما عت کردش پیپلز ڈیمو کریٹ پا رٹی(ایچ ڈی پی) 59 (جون میں 80)نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ کردوں کے حقوق کی علمبردار جماعت ’’ایچ ڈی پی ‘‘نے اس سال جون کے انتخابات میں پہلی مرتبہ 10فیصد سے زائد،یعنی13فیصد ووٹ حاصل کرکے ترکی کی پا رلیمنٹ میں اپنی جگہ بنا ئی تھی۔ترکی میں چونکہ متنا سب اور کسی حد تک فو جی آمروں کا بنا یا ہوا انتخابی نظام ہے اس لئے جو جماعت 10فیصد سے کم ووٹ حاصل کرے وہ پا رلیمنٹ میں نما ئندگی حاصل نہیں کر سکتی۔ اور اس مرتبہ ’’ ایچ ڈی پی‘‘ مشکل سے ہی10فیصد تک ووٹ حاصل کرنے میں کا میا ب ہو پا ئی ۔مگر ترکی کے انتخابات میں سب سے زیا دہ اہمیت کا سوال یہی تھا کہ 2003ء سے حکمران چلی آرہی ’’اے کے پا رٹی ‘‘ کیا اب بھی ترکوں کی مقبول ترین سیا سی جماعت ہے یا نہیں؟ ۔ کیا49فیصد ووٹ حاصل کرنا اس با ت کا ثبوت ہے کہ صدر اردوان آج بھی ترکی میں مقبول ہیں؟


ترکی کی ’’ فلاح ‘‘اور’’ورچیو‘‘ پا رٹی کے کا لعدم قرار دئیے جانے کے بعد جب اس جما عت کے اہم ارکان ’’اے کے پارٹی ‘‘کو وجود میں لائے۔ تو انہوں نے ترکی کی اکثر یت کو یہ با ور کر وایا کہ ترکی کے تما م معاشی اور سیاسی مسائل کی جڑ ترکی کی عسکری اور سیا سی اشرا فیہ ہے جو کما ل اتا ترک کے سیکو لر نظریہ کے نا م پر عوام کے سیاسی حقوق غصب کر چکی ہے اور عا م آدمی تک معاشی ترقی کے ثمرات بھی نہیں آنے دے رہی۔’’ اے کے پارٹی‘‘ نے طیب اردوان کے بطور مئیر (استنبول) کے ترقیا تی کاموں کو پورے ترکی میں ایک ما ڈل کے طور پر بھی کیش کروایا۔ انہی باتوں کو بنیاد بنا کر ’’اے کے پارٹی‘‘ نے 2002ء کے انتخابا ت سے اپنی سیا سی کا میابیوں کا آغاز کیا۔اگر سرما یہ داری نظام کو ہی بنیا د بنا کر با ت کی جائے تو اپنے اقتدار کے آغا ز میں’’ اے کے پارٹی ‘‘نے معیشت میں کئی اصلا حات متعا رف کروائیں، عا م لو گوں کے مسائل جیسے صحت، تعلیم کے شعبوں پر بھی خاص توجہ دی گئی۔خواتین کی بہبود کے لئے بھی بہت سے پروگرام متعا رف کروائے گئے۔ ترکی کا جی ڈی پی بھی حیران کن حد تک بڑھنا شروع ہو گیا۔ اپنی انہیں پالیسیوں پر بھر پو ر اعتما د کے با عث ’’ اے کے پا رٹی‘‘ نے ترکی میں فوج کے ادارے کا سیا سی کردار بھی محدود کرنا شروع کر دیا۔ ما رشل لا کی سازش کرنے والے کئی جر نیلوں کے خلاف غداری کے مقدمے بھی چلائے گئے۔ترکی کہ جہاں کی سیا سی تاریخ میں فوج بھرپور کردار ادا کرتی آئی ہے اس معروض میں جب ’’اے کے پا رٹی‘‘ نے فوج کے سیا سی کردار کو ایک طرح سے ختم کر دیا توپوری دنیا نے اسے ا یک بہت بڑی تبدیلی ما نا اور اسے ’’ ا ے کے پارٹی ‘‘ کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا۔

اپنے اسی بھر پور اعتما د کے با عث اے کے پا رٹی نے 2007ء کے ا نتخابات پہلے سے بھی زیا د ہ اکثریت سے جیتے، مگر اب اقتصادی ترقی کا عمل نہ صرف رک گیا، بلکہ بعض شعبوں میں معاشی بد حالی کا بھی آغا ز ہونا شروع ہو گیا۔ ترکی کی کرنسی لیرا بھی تیزی سے اپنی قدر کھونے لگی ۔ معاشی مسائل کو حل کرنے کی بجائے اردوان نے سیکو لر ازم کی مخالفت کے نام پر اپنے سیا سی مخالفین سیاست دانوں،پولیس افسران، پروفیسروں،صحافیوں حتیٰ کہ ججوں کے خلاف بھی ریا ستی جبر کا آغاز کر دیا۔آئین کی ایک شق کو بنیاد بنا کر، جس کے مطا بق سربراہ مملکت پر تنقید نہیں کی جا سکتی ، سو شل میڈیا میں اردوان پر تنقید کرنے والے افراد کو سخت سزائیں دی گئیں، حتیٰ کہ اخباروں میں معمولی مخالفت پر مبنی کارٹون بنا نے والوں کو بھی سزائیں دی گئیں۔دوسری طرف اردوان کے قر یبی وزیروں اور ساتھیوں پر کرپشن کے الزامات سامنے آنا شروع ہو گئے۔ دسمبر2013ء میں اردوان کا بینہ کے تین وزیروں کو اس لئے استعفیٰ دینا پڑا کیونکہ ان کے بیٹوں پر کرپشن کے الزامات درست ثابت ہوئے تھے۔ترکی کے ایک عام آدمی کو طیب اردوان( جو چند سال پہلے تک اپنے غریب خاندانی پس منظر کو فخر سے بیان کرتا تھا) اس وقت صیح معنوں میں ایک آمر اور شہنشاہ نظر آیا ہو گا کہ جب اس نے دیکھا کہ اردوان نے 1,000کمروں پر مشتمل ایک انتہا ئی عالی شان محل میں رہنا شروع کر دیا، جس پر 600 ملین امریکی ڈا لرخرچہ کیا گیا۔ اس عالی شان محل میں سینکڑوں افراد صرف اس لئے نوکر رکھے گئے تاکہ ا ردوان کی خوراک کو معیا ری بنا سکیں ۔ اردوان کے خلاف مظاہروں کو کچلنے کے لئے بھی ریا ستی قوت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔خارجہ پالیسی کے میدان میں شام کے بشار الاسدکے اقتدار کو ختم کروانے کے لئے النصرہ اور داعش جیسی تنظیموں کو با لواسطہ اور بلا واسطہ امداد فراہم کرنے کی پا لیسی کو بھی ترکی کے عوام نے سراسر نا پسند کیا۔


اس سال جون میں 41فیصد ووٹ (258نشستیں) کو اب محض چار ماہ کے ہی عرصے میں 49فیصد (316نشستیں)تک بڑھانے کے لئے بھی اردوان کو بہت سے ہتھکنڈے استعما ل کرنا پڑے۔اس مختصر عرصے کے دوران پیپلز ڈیمو کریٹ پا رٹی (ایچ ڈی پی) کے 200سے زائد دفا تر پر ’’ اے کے پا رٹی‘‘ کے لوگوں نے حملے کئے اس پر پولیس خاموش تما شائی بنی رہی۔اپو زیشن جما عتوں کے کئی امیداواروں کو پولیس کے ذریعے ڈرایا دھمکایا گیا۔’’گارڈین‘‘ کے مطا بق اپو زیشن کے کئی امیدواروں کو انتخابات سے پہلے با قاعدہ گر فتا ر کر لیا گیا ’’کوزا الپیک ‘‘جو اہم اخبا رات کے ساتھ دو مقبول نیوز چینل چلانے والی کمپنی ہے اس کے دفا تر کو پو لیس کے چھا پوں کے ذریعے بند کر وایا گیا، ’’بگون‘‘ جیسے بڑے نیوز چینل کو انتخابات سے چند روز قبل پولیس کی دھونس کے ذریعے بند کر دیا گیا ، جس پر ترکی سمیت دیگر ممالک نے بھی احتجا ج کیا۔ حکومت کی مخالفت کرنے والے اخبارات کے دفا تر پر اپنے حامیوں سے حملے کر وائے گئے۔ 32اخبارات اور 22نیوز چینلز کو دبا ؤ میں لا کر مجبور کیا گیا کہ وہ صرف ’اے کے پا رٹی‘‘کی انتخابی مہم کی تشہیر کریں۔انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ’’اے کے پا رٹی‘‘ کی جانب سے جو ’’کارنامے سرانجام دئے گئے یہ اس کی صرف چند مثالیں ہیں۔


ترکی اور پا کستان میں جہاں کئی اقدار مشترک ہیں وہیں پر دونوں ممالک کی تا ریخ بتا تی ہے کہ دونوں ممالک میں جمہو ریت کو بڑی بڑی مشکلات سر کر کے ، قربا نیوں اور جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیا ہے۔اگر جمہو ری حکومتیں ہی آمرانہ ہتھکنڈوں پر اتر آئیں تو پھر عوام اس نظام سے ما یوس ہو جا ئیں گے۔ایسے ممالک میں جہاں جمہو ری نظام کوخطرہ رہتا ہو وہاں پر سول حکمرانوں کی ترجیح عوامی بہبود ہی ہونی چا ہئے تاکہ عام انسانوں کا جمہو ری نظام پر اعتماد مضبو ط بنا یا جا سکے۔ اگر اقتدار سے چمٹے رہنے کے لئے سول حکمران بھی آمروں کے طریقے ہی اختیا ر کریں گے، تو وہ شاخ ٹوٹ کر گر جائے گی جس پر وہ بیٹھے ہیں۔ *

مزید :

کالم -