بیرسٹر ظفراللہ کی درخواست وزیراعظم کے معاون خصوصی کے کھاتے میں کیوں ڈال دی گئی؟
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
’’پاناما لیکس‘‘ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، بیٹھتا بھی ہے یا اسی طرح کھڑے کھڑے اودھم مچائے رکھتا ہے، یہ تو معلوم نہیں، لیکن اس نے ایک عالم کو دیوانہ بنا رکھا ہے، عمران خان اس مسئلے پر اسلام آباد شہر کو ’’لاک ڈاؤن‘‘ کرتے کرتے رہ گئے اور اس کے متبادل کے طور پر یوم تشکر منالیا۔ اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور فاضل عدالت ایک تحقیقاتی ٹربیونل اور اس کیلئے ٹی او آر بنانے جا رہی ہے جس پر وکلاء کی رائے بٹی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کا کہنا ہے کہ عدالت کو ٹی او آر بنانے کا اختیار نہیں، کئی اور سینئر وکلاء بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ اس پر بات تو ہم بعد میں کرتے ہیں پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمارے اخبار نویس ساتھیوں کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جو بیرسٹر ظفر اللہ وزیراعظم کے مشیر ہیں انہوں نے سپریم کورٹ میں کوئی پٹیشن دائر نہیں کی۔ گزشتہ روز بھی انہوں نے وضاحت کردی تھی کہ وہ کوئی درخواست لے کر سپریم کورٹ نہیں گئے لیکن ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے بقراطوں نے یہ سمجھا کہ ہو نہ ہو یہ ظفر اللہ جھوٹ بولتا ہے، درخواست اسی نے دائر کی ہے چنانچہ ایک اخبار نے اپنی لیڈ کی سرخی میں لکھ دیا ’’عدالت پارلیمنٹ میں مداخلت کرسکتی ہے نہ ٹی او آر بنانے کی مجاز ہے معاونِ خصوصی وزیراعظم‘‘۔ عدالت مداخلت کرسکتی ہے یا نہیں کرسکتی یہ فیصلہ تو ہوتا رہے گا لیکن میڈیا کے دوستوں کو یہ علم تو ہونا چاہئے کہ جو درخواست سپریم کورٹ میں دائر ہوئی ہے وہ وطن پارٹی کے صدر بیرسٹر ظفر اللہ نے دائر کی ہے جن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں، جو لاہور سے تعلق رکھتے ہیں اور باقاعدہ قانونی پریکٹس کرتے ہیں اور یہ درخواست بھی ان کی جانب سے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں دائر ہوئی ہے جبکہ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی بیرسٹر ظفر اللہ خان اسلام آباد میں رہتے ہیں اور بیرسٹر ہونے کے باوجود قانون کی پریکٹس نہیں کرتے۔ دونوں کا نام ایک ہے لیکن کام جدا جدا ہے۔ ایک ظفر اللہ خان کی اپنی سیاسی جماعت ہے جس کے وہ صدر ہیں اور انہوں نے اپنی درخواست میں واضح طور پر اپنی یہ حیثیت ظاہر کی ہوئی ہے جبکہ دوسرے ظفر اللہ کی اپنی کوئی سیاسی جماعت نہیں البتہ وہ مسلم لیگ (ن) کا حصہ ہیں، لیکن نہ جانے کیوں ٹی وی چینلوں اور بعض اخبارات نے اس خبر کو وزیراعظم کے معاون خصوصی کے کھاتے میں ڈال دیا؟ یہ محض ناموں کے مغالطے کی وجہ سے ہوا، کم علمی کی وجہ سے ہوا یا پھر کسی صاحب کو یہ سوچ آئی کہ وزیراعظم خود تو کہتے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کے حقِ سماعت کا سوال عدالت میں نہیں اٹھائیں گے (حالانکہ یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے) لیکن ان کا معاون خصوصی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رہا ہے، چنانچہ یہ خبر جب چینلوں سے چلی تو معاون خصوصی ظفر اللہ خان کو اس کی تردید کرنا پڑی لیکن اس کے باوجود بعض اخبارات نے اس تردید پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہ کی بلکہ ایک اخبار نے تو معاون خصوصی کی جانب سے یہ تک لکھ ڈالا کہ انہوں نے یہ درخواست ذاتی حیثیت میں دائر کی ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ سپریم کورٹ مجوزہ کمیشن کیلئے ٹی او آر بنا سکتی ہے یا نہیں اس پر قانونی ماہرین کی رائے منقسم ہے۔ سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کا کہنا ہے کہ جب جوڈیشل کمیشن اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے روبرو پیش کرے گا تو تقریباً ہر فریق اس کے فیصلے پر اعتراضات اٹھائے گا ایسے میں کیا بنچ ان اعتراضات کا جائزہ لے گا؟ اور متاثرہ فریقوں کو سنے گا اگر نہیں تو پھر کس طرح یہ معاملہ طے کیا جائے گا اس لئے سپریم کورٹ کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء میں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ سے اختیارات حاصل کرے۔ پارلیمنٹ سے اختیار حاصل کرنے کے بعد کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء کے تحت کمیشن تشکیل دے۔ یہ سارا معاملہ سیاسی ہوچکا ہے سپریم کورٹ کو اسے محتاط انداز میں طے کرنا چاہئے۔ قانونی موشگافیاں تو قانون دان بہتر جانتے ہیں ہم ناموں کے مغالطے کی وجہ سے پیدا ہونے والی دلچسپ صورتحال کے ضمن میں ماضی کے بعض مشہور واقعات کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ احمد بشیر نام کے دو معروف اور نامور صحافی ہم عصر ہوا کرتے تھے، اب دونوں مرحوم ہوگئے۔ دونوں کا نام ایک جیسا تھا لیکن نظریات میں بعدالمشرقین تھا، ایک احمد بشیر سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے ڈی جی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور دائیں بازو کے نظریات رکھتے تھے، دوسرے احمد بشیر بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ ’’مساوات‘‘ کے ایڈیٹر رہے، کالم نگاری میں نام پیدا کیا، ’’جو ملے تھے راستے میں‘‘ ان کے لکھے ہوئے خاکوں کا مجموعہ ہے اپنے بے باک طرزِ تحریر کی وجہ سے اس کتاب کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک دن اپنے سٹاف سے کہا کہ لاہور سے صحافی احمد بشیر کو ان سے ملاقات کیلئے بلوائیں، ان کا دھیان فوری طور پر اے پی پی والے احمد بشیر کی جانب چلا گیا اور محکمہ اطلاعات نے پی آئی اے کا ٹکٹ بھیج کر انہیں اسلام آباد طلب کیا، اس ملاقات کیلئے طلبی پر حیران تو وہ بہت ہوئے لیکن پھر یہ سوچ کر چلے گئے کہ اے پی پی سرکاری ادارہ ہے، کسی سرکاری کام کیلئے ہی وزیراعظم نے طلب کیا ہوگا۔ ملاقات کے وقت جب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سامنے ایک اجنبی احمد بشیر کو دیکھا تو ان کی حیرت بھی دیدنی تھی کیونکہ انہوں نے جس احمد بشیر کو طلب کیا تھا ان سے وہ براہ راست تعلق رکھتے تھے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی پیش آیا، انہوں نے نوید ملک کو اپنا مشیر مقرر کیا تو نوٹیفکیشن دوسرے نوید ملک کو مل گیا جو سیاسی رہنما تھے اور پیپلز پارٹی سے جن کا کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ پارٹی کے مخالف تھے۔ نوٹیفکیشن لے کر وہ عہدہ سنبھالنے کیلئے پہنچے تو پتہ چلا کہ غلطی ہوگئی ہے۔
بیرسٹر ظفر اللہ کی درخواست