پاناما لیکس کیس، سپریم کورٹ میں سماعت ،وزیراعظم کے بچوں نے جواب داخل کرادیئے,فریقین کو دستاویزات جمع کرانے کیلئے 15 نومبر تک مہلت
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس تحیققاتی کمیشن کیس میں فریقین کو الزامات کے حوالے سے دستاویزات جمع کرانے کے لئے 15نومبر تک کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ وزیراعظم نوازشریف کے بچوں مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز کی جانب سے جواب بھی داخل کرادیئے گئے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو شریف فیملی کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے وزیراعظم نوازشریف کے بچوں مریم نواز ،حسن نواز اور حسین نواز کی جانب سے جواب پڑھ کر سنائے۔
مریم نواز کی جانب سے داخل جواب میں کہا گیا وہ انڈیپینڈیٹ اور بالغ ہیں اور وزیراعظم نوازشریف کی زیر کفالت نہیں،2009سے پہلے وہ بیرون ملک تھیں ،2009کے بعد سے وہ اپنے ٹیکس باقاعدگی سے ادا کررہی ہیں، گوشوارے بھی جمع کرا رہی ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا مریم نواز کبھی نوازشریف کے زیر کفالت رہی ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ 2011سے وہ ان کے زیر کفالت نہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ لندن میں جائداد بھی نیسکول اور نیلسن نامی آف شور کمپنیوں کی ملکیت ہیں۔ مریم نواز ان کمپنیوں کی صرف ٹرسٹی ہیں ،انہوں نے کبھی کوئی مالی فائدہ نہیں لیا، لندن کی جائداد سے بھی ان کا یا وزیراعظم کا کوئی تعلق نہیں۔
وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کی جانب سے بھی جواب عدالت میں جمع کرایا گیا۔ جواب میں عمران خان اور دیگر کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ دونوں بھائی کئی سال سے ملک سے باہر ہیں ،دونوں بالغ اورانڈیپینڈیٹ ہیں اور اپنا کاروبار کررہے ہیں، دونوں کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں، وزیراعظم نوازشریف کا بھی ان کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس انتہائی اہم ہے، پک اینڈ چوز والا معاملہ نہیں، تمام درخواستوں کی سماعت کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو انتشار اور بحران سے بچانا چاہتے ہیں، وہ کام کررہے ہیں جو ہمارا ہے ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کارروائی سے کسی کا بھی استحقاق مجروح نہیں کیا جاسکتا۔کسی کے ساتھ کچھ بھی امتیازی نہیں ہوگا، پاناما کی لپیٹ میں سب آئیں گے،بدعنوانی کرنے والے سب اس کیس کی زد میں آئیں گے۔جس کا بھی کیس سنیں گے وہ آئینی اور قانونی ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ”ہم بادشاہ نہیں کہ قانون سے ہٹ کر جو چاہیں کرتے رہیں“۔عدالت کے لئے بہت آسان تھا کہ معاملہ نیب کو بھجوادیتی لیکن ایسا نہیں کیا، جو بھی فیصلہ ہوگا ،قانون کےمطابق ہی ہوگا۔
شریف فیملی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ لندن میں جائداد خریدنے کے لئے رقم بھی پاکستان سے نہیں بھجوائی گئی۔ میاں نوازشریف کے والد نے یہ رقم دبئی میں فیکٹری کی فروخت سے حاصل کی اور پھر اسے لندن میں سرمایہ کاری میں لگایا۔جس پر عدالت نے دستاویزات جمع کرانے کے حوالے سے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا دستاویزات جائداد کے مالکان کے پاس ہیں؟ شریف فیملی کے وکیل نے جواب دیا کہ دستاویزات ان کے پاس نہیں، بیرون ملک سے منگوانی ہیں لہذا پندرہ روز کی مہلت دی جائے۔ جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ دستاویزات نہ جمع کرانے سے لگتا ہے کہ عدالت سے کچھ چھپایا جارہا ہے۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ بہت سادہ سا کیس ہے، جب تک عدالت کو مطمئن نہیں کیا جاتا ، کلین چٹ نہیں دیں گے، حسین نواز عدالت میں پیش ہوکر مطمئن کریں، کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف کرنے کے بعد عدالت کو مطمئن کرنا مالکان کا کام ہے، اگرمطمئن نہ کیا گیا تو کیس کسی اور طرف جائے گا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ دوسرا راستہ ہے کہ دستاویزات کمیشن کے سامنے پیش کی جائیں لیکن وہاں کوئی مہلت نہیں مانگ سکے گا۔اس پر شریف فیملی کے وکیل نے کہا کہ وہ دستاویزات جمع کرادیں گے،عدالت کمیشن بنادے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کمیشن کا اعلان تمام پہلوؤں اور الزامات سے متعلق دستاویزات کا جائزہ لیکر ہی کیا جائے گا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تجویز دی کہ بظاہر کمیشن کی ضرورت نہیں کیونکہ جواب میں کمپنیوں کی ملکیت سے انکار نہیں کیا گیا، ملکیت سے متعلق عمران خان کی درخواست میں الزامات کا حصہ بھی تسلیم کرلیا گیا ،ہم کسی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے والے نہیں،وزیراعظم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ فیصلہ خلاف آیا تو وہ عہدے پر نہیں رہیں گے۔عدالت عظمٰی نے فریقین کو الزامات سے متعلق دستاویزات جمع کرانے کے لئے 15نومبر تک کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔