گم شدہ افراد کے لئے قانون سازی!

گم شدہ افراد کے لئے قانون سازی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


یوں تو دنیا میں کئی ممالک ہیں جو مسائل سے دو چار ہیں، تاہم ہمارے ملک میں تو یہ لامحدود نظر آنے لگے ہیں، ایسے ہی امور میں ایک مسئلہ لاپتہ افراد کا بھی ہے اور ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے، ان گم ہو جانے والے افراد کے لواحقین، حتیٰ کہ پسماندگان بھی پریشان اور غم کی تصویر بنے ہوئے، اکثر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ان کے عزیزوں کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اراکین ساتھ لے گئے اور وہ پھر واپس نہیں آئے اور ان کا اتا پتہ بھی معلوم نہیں ہوا، اس سلسلے میں احتجاج بھی ہوا اور مسلسل ہو بھی رہا ہے، سابقہ ادوار میں لاپتہ افراد کی تحقیق اور ان کی بازیابی کے لئے کمیشن بھی بنایا گیا جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) جاوید اقبال کررہے ہیں، کمیشن اپنی رپورٹ بھی دے چکا، جس کی اشاعت کے لئے مطالبہ منظوری حاصل نہیں کرسکا۔گزشتہ روزسینٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے شرکت کی۔ مصطفی نواز کھوکھر کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا کہ ان کو لاپتہ افراد کے کمیشن کی رپورٹ تک رسائی حاصل نہیں، وزیر نے بتایا کہ ان کی وزارت انسانی حقوق کی طرف سے وزیر اعظم کو تجاویز ارسال کی گئی ہیں اور کہا ہے کہ اس سلسلے میں قانون سازی ہونا چاہئے کہ جمہوری ممالک میں کسی بھی فرد کوجبراً گم یا لاپتہ نہیں کیا جاتا، سینٹ کمیٹی کا موقف تھا کہ کسی بھی شہری کو کسی جرم کے ارتکاب یا شبہ میں پکڑا جاتا ہے تو متعلقہ ادارے کا فرض ہے کہ اسے عدالت میں پیش کرے اور الزامات ثابت کرکے سزا دلائے گم کردینا کسی طور پر بھی درست نہیں، وزیر انسانی حقوق کے مطابق ملک میں سول اور خصوصی عدالتوں کے علاوہ فوجی عدالتیں بھی موجود ہیں بہتر عمل یہ ہے کہ ملزم کو ان عدالتوں میں سے اس عدالت میں پیش کیا جائے جو متعلقہ ہو۔افراد کا لاپتہ ہونا اور گمشدگی ایک ایسا عمل ہے جو لواحقین کو نہ زندہ اور نہ مردہ رہنے دیتا ہے وہ بیچ میں لٹکے رہتے ہیں کہ کوئی اطلاع ملے، رضاء الہٰی سے اموات بھی ہوتی ہیں اور بڑے بڑے ناگزیر لوگ اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں، ان کے لئے صبر آہی جاتا ہے لیکن جن کے بارے میں علم ہی نہ ہو کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں، ان کے لواحقین ہر وقت غم میں ڈوبے رہتے ہیں وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا درست ہے کہ کسی جمہوری مہذب ملک میں ایسا نہیں ہوتا اور کسی کے خلاف کوئی سنگین الزام بھی ہو تو اسے متعلقہ عدالت میں پیش کرکے شواہد کی بنا پر سزا دلائی جاتی ہے وزیر نے کمیشن برائے بازیابی سے حاصل معلومات کی بنا پر بتایا کہ اب تک 3633کیس نمٹائے جاچکے ہیں، اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعداد کتنی ہوگی، ملک میں آئین اور قوانین موجود ہیں اور ان کے مطابق جرائم کی سزا بھی متعین ہے جو عدالت مجاز سے ہوتی ہے، بہتر تو یہی ہے کہ گم شدہ افراد کی معلومات دے دی جائیں اور ان کے خلاف الزامات کے لئے ان کو عدالت میں پیش کردیا جائے۔اب اکثر وزارت انسانی حقوق نے تجویز دی ہے تو وزیر اعظم کو مان لینا چاہئے اور قانون سازی متفقہ (حزب اقتدار+حزب اختلاف) طور پر ہوتا کہ کوئی اعتراض نہ رہے اور پھر کسی کوجبراً گم کرنے کی ضرورت نہ ہو۔

مزید :

رائے -اداریہ -