وزیر اعظم کے دورہ چین کے ثمرات
پاکستان اور چین کے تعلقات کئی صدیوں سے مثالی چلے آ رہے ہیں۔ چین نے ہمیشہ ایک مخلص دوست کے طور پر ہر آڑے وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔پاکستانی عوام چین کی دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ چین سے دوستی کی بنیاد پاکستان کے سا بقہ صدر جنرل ایوب خان اور اُس وقت کے وزیر خارجہ بھٹو صاحب نے ڈالی تھی۔ وقت کیساتھ ساتھ یہ دوستی گہری ہوتی گئی۔ سعودی عرب کی طرح پاکستان کا نیا وزیر اعظم چین کے ساتھ نہ صرف گہرے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے بلکہ اُس کی خوا ہش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے چین کا دورہ کیا جائے۔ پاکستان نے جب بھی آڑے وقت میں چین کو پُکارا، چین نے ہمشیہ پاکستان کی سیاسی، اقتصادی اور تجارتی طور پر مدد کی۔پاکستان کے حالیہ وزیر اعظم عمران خان کو سر کاری طور دعوت دی گئی تھی کہ وُہ چین کا دورہ کریں۔ لہذا عمران خان صاحب نے چین کا دورہ کرنا اہم سمجھا ، حالانکہ انہوں نے غیر ضروری دورے کرنے سے معذرت کر رکھی ہے۔عمران خان مُلک کے مُفاد میں دوسرے ممالک کے دورے کرنے کے خواہاں ہیں۔ وُہ سابقہ حکمر انوں کی طرح لمبے چوڑے وفود کے ساتھ بے مقصد دورے کرنے کے عادی نہیں۔ بعض ا شخاص کے نزدیک وُہ طبعیت کے بُخیل واقع ہوئے ہیں۔ ہم سجھتے ہیں کہ وُہ اپنے سے زیادہ اپنے مُلک کو اہمیت دیتے ہیں۔ وُہ مُلک کی اقتصادی اور معاشی حالت کو سُدھا رنے کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے تمام تر غیر ضروری اور غیر اہم اخراجات کو کم کرنے کا بیڑہ اُٹھایا ہے۔ وزیر اعظم ہاوس میں رہنے کی بجائے سرکاری ملازم کی رہائش گاہ کو اپنے رہنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ہم سجھتے ہیں کہ تبدیلی کسی چڑیا کا نام نہیں۔ بلکہ تبدیلی کا مقصد یہ ہے کہ عام آد می کی اپنے مُلک کے بارے سوچ کو یکسر بدل دیا جائے۔ عوام میں اپنے مُلک کے لئے ہمدرد ی پیدا کی جائے۔ حب الوطنی صرف بیانات سے ظاہر نہں ہونی چاہئے بلکہ وُہ عملی طور پر بھی دکھائی دینی چاہئے۔ عمران خاں نے ایک وزیر اعظم کے طور پر ایک عام سے کپڑے پہن کر چین کی سرکاری تقریبات میں شرکت کی ہے۔ لیکن انہیں ایسا کرنے میں کو ئی عار محسوس نہیں ہوئی۔ کیونکہ وُہ چاہتے ہیں کہ وُہ وعدے جو انہوں نے قوم سے کر رکھے ہیں ،اُن کو جلد از جلد پُورا کریں۔لہذا اُن کو یہ پرواہ نہیں کہ لوگ اُن کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ یا وُہ عام سے لباس میں کیسے لگتے ہیں؟ یہ اپنے مُلک کی بہتری کے لئے پیسہ بچانا چاہتے ہیں۔ اور یہی بات ایک بہت بڑی تبدیلی کی غماز ہے۔ انہوں نے چین کے ساتھ پندرہ معا ہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ جن کا تعلق زندگی کے ہر شعبہ سے ہے۔ لیکن ان میں دو معاہدے زیادہ اہم ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔ اور یہ تجارت دونوں مُلکوں کی کرنسی میں ہوگی۔ جس سے دونوں مُلکوں کا امریکی ڈالر پر انحصار کم ہو جائے گا۔ دوسرے نمبر پر اہم معاہدہ زراعت کے شعبے میں ہے۔ یہ معاہد ہ اپنی افادیت اور ا ہمیت کے اعتبار سے خاصہ اہم ہے۔
ماضی کی حکومتوں نے چین کے ساتھ ہر دور میں کئی معاہدے کئے ہیں لیکن عمراں خان کی حکومت کو یہ کریڈت جاتا ہے کہ انہوں پہلی بار دونوں مُلکوں کی تجارت کو فروض دینے کے لئے پاکستانی اور چینی کرنسی کو چُنا ہے۔ ماضی میں ا یسے معاہدے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ، ماضی کی کسی بھی حکومت نے محکمہ زر اعت میں چینی مہارت سے استفادہ کرنے کے بارے میں سوچا تک نہیں ہے۔
عمران خاں کی حکومت نے پاکستان کوجدید سائنسی تقا ضوں سے ہمکنار کرنے کے لئے چین کے تعاون سے خلا نوردی میں بھی شرکت کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ عمران خاں نے کرپشن کو ختم کرنے کے لئے چین کی مہارت سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے اپنی خواہش کا برملا اظہار کیا ہے۔
عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے وقت بعض حلقوں کی طرف سے یہ افواہ اُڑائی گئی تھی کہ عمران سی پیک کو رول بیک کر رہے ہیں۔ بلکہ جب عمران خاں نے کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی تو اُنکو ہر وقت یہ طعنہ دیا گیا کہ عمران خاں نے ایک سازش کے تحت دھرنوں کی سیاست کو رواج دیا ہے تاکہ ہمارا مُلک ترقی نہ کر سکے۔ عمران خاں مُلک کی ترقی کے خلاف ہرگز نہیں بلکہ وُہ ایسے عناصر کے خلاف ہیں جو کرپشن میں ملوث ہیں۔ قارئین کو یا دہوگا کہ مسُلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں آصف زرداری اور شہباز شریف ہر ہفتے چین کے دورے پر جاتے تھے۔ عوام کو یہ تا ثر دیا جارہا تھا کہ اُن کے بغیر سی پیک کی کامیابی نا ممکن ہے۔ شریف خاندان کے افراد کی سوچ ہمشیہ تاجرانہ رہی ہے۔ وُہ اپنے آپ کو اور اپنے دوستوں کو نوازنے کے لئے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ بڑے بڑے ٹھیکے اپنے قریبی دوستوں کے مختص کر لیتے ہیں۔ کک بیکس لینے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔کسی زمانے میں شریف خاندان نے کوریا کی تعمیراتی کمپنیوں سے اچھا خاصا پیسہ بنایا تھا۔ اِس حقیقت سے تما م لوگ آشنا ہیں۔ لیکن عمران خان مُلک اور قوم کے لئے ابھی تک مُخلص ہیں۔ وُہ تمام تر معاہدے مُلک کی ترقی اور بہتری کے لئے کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بات کُچھ ہمارے دوست نما دُشمنوں کو پسند نہیں آ رہی ہے۔ وُہ سی پیک کی راہ میں ہر طرح کے روڑے اٹکانے کے لئے اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔
بھارت اور امریکہ کی کوشش ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان کشیدگی کی راہ کو ہموار کیا جائے۔ تاکہ پاکستان چین سے تعلقات بڑھانے کی بجائے امریکہ پر انحصار کرے۔ امریکہ کو چین پاک دوستی ایک زمانے سے کھٹکتی ہے۔ اور امریکہ کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کے رُوس کے ساتھ بھی تعلقات دن بدن بہتر ہو رہے ہیں۔ امریکہ جنوبی ایشیاء میں اپنے اثر رسوخ کو یکسر گنوانا نہیں چاہتا۔ بھار ت کی شکل میں امریکہ کے پاس جنوبی ایشیا میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے ہر قسم کی سہولت موجود ہے۔ لیکن امریکہ کی مجبوری یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان سے گُفت و شنید کرنے کے علاوہ پاکستان کے علاوہ کوئی موثر مُلک مُو جود نہیں۔ بھارت کے تعلقات بلاشبہ افغاں حکومت سے گہرے ہیں لیکن طالبان سے بھارت کے تعلقات پاکستان کی بہ نسبت عامیانہ سے ہیں۔ لہذا امریکہ پاکستان کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے۔وُہ مالی امداد کے ذریعے پاکستان کو ایسی شرائط منوانا چاہتا ہے جو پاکستان کے مُفاد عامہ کے متصادم ہیں۔ ماضی کی حکومتیں اپنی مختلف کمزوریوں کے با عث امریکہ کی ہر خواہش کے سامنے گھُٹنے ٹیک دیتی تھیں۔ لیکن پاکستان میں نئی حکومت کے آنے سے حکومت اور عوام کے مزاج میں ایک واضع تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت نے اپنی حکمت عملی سے مُلک کی اقتصادی حالت کو اِس حد تک بہتر بنا لیا ہے کہ کم از کم پاکستان کی حکومت کو قرضوں کے سُود کی ادائیگی میں دِقت پیش نہیں آئے گی۔آئی ایم ایف سے بھی مذاکرات جاری ہیں۔ لیکن دوست مُلکوں سے قرضہ لے کر عمران خان نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان امریکہ کے بغیر بھی اقتصادی طور پر زندہ رہ سکتا ہے۔چین، سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی مالی مدد سے پاکستان مالی بحران سے باہر نکل سکتا ہے۔عمران خان نے چین کی حکومت کو پاکستان کی مالی مدد کرنے پر آمادہ کر لیا ہے۔ اور چین کے ساتھ شتراک کے نئے دور کا آغاز کیا ہے۔
اُمید ہے کہ زراعت اور باہمی تجارت کو چینی اور پاکستانی کرنسی میں فرو غ دے کر ہم امریکی ڈالر کے چُنگل سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ عمران خان نے نئے اور بڑ ے منصوبے کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ سی پیک سے نہ صرف دونوں ممالک کو اقتصادی اور تجارتی طور فائدہ ہوگا بلکہ چین کی ا ہمیت بھی مزید تمام دُنیا پر واضع ہو جائے گی۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔