فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر549

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر549
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر549

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’تان سین‘‘ کوبرصغیر کی موسیقی اور گائیکی میں ایک دیومالائی حیثیت حاصل ہے۔ ’’تان سین‘‘ سے وابستہ بہت سی کچھ سچی جھوٹی (خدا جانے) داستانیں بھی مشہور ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے بمبئی میں ’’تان سین‘‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنی تھی جسمیں تان سین کا مرکزی کردار اس زمانے کے عظیم اور مقبول گائیک کے۔ ایل سہگل نے ادا کیا تھا۔ یہ عہد اکبری کی کہانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تان سین شہنشاہ اکبر کے نورتنوں میں شامل تھا۔ بڑا مقام اور دبدبہ تھا۔ شہنشاہ اس کا گانا سنے بغیر سکون حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ مسلمان تھا اس لیے اہل موسیقی اسے یہاں تان سین کہتے ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ سابقہ ریاست گوالیار میں جہاں تان سین کی قبر ہے اس ایک گھنا درخت سایہ فگن ہے جو شخص اس درخت کا ایک پتا کھا لے وہ سریلا بن جاتا ہے۔اب تک کتنے لوگ اس قبر کے درخت کا پتا کھاچکے ہیں،سنا ہے بہت سے لوگ یہ کام کرتے ہیں مگر ان میں سے کتنے سریلے ہوئے ہیں ،یہ کوئی نہیں بتاسکتا ۔ واللہ عالم بالصواب۔
فلم تان سین میں کہانی کی ضروریات کے مطابق تان سین کی ایک محبوبہ بھی تھی جسے ’’تانی‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ تانی کا کردار معروف گلوکارہ اور اداکارہ خورشید نے کیا تھا اور خوب گانے گائے تھے۔ خورشید کی آواز اور سریلے پن سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس زمانے میں پلے بیک سنگروں کا زیادہ رواج نہ تھا۔ ایسے فن کاروں کو اہمیت دی جاتی تھی جو خود گلوکار بھی ہوں۔ ان کی قدر و منزلت بھی زیادہ تھیا ور معاوضے بھی۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر548پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فلم کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ شہنشاہ اکبر کے دربار میں ایک اور گویا تان سین کو چیلنج کرتا ہے۔ دونوں میں گائیکی کا مقابلہ ہوتا ہے جس میں تان سین فتح یاب ہوتا ہے۔ اس کے بعد دشمن شہنشاہ کے کان میں انتقاماً یہ بات ڈالتے ہیں کہ تان سین اگر ایسا ہی گویا ہے تو اس سے کہئے کہ ’’دیپک راگ‘‘ گائے۔ روایت ہے کہ ا س راگ سے بجھے ہوئے دیئے خودبہ خود روشن ہو جاتے ہیں۔ شہنشاہ کو یہ تجویز پسند آگئی اور انہوں نے تان سین سے فرمائش کر دی کہ دیپک راگ سناؤ۔۔۔تان سین کو علم تھا کہ اس راگ کو گانے سے گانے والے کے جسم پر چھالے پڑ جاتے ہیں اور اس کی زندگی کے لالے پڑ جاتے ہیں مگر حکم حاکم مرگ مفاجات۔
کلائمکس کے منظر میں تان سین (سہگل) دربارمیں یہ راگ گاتے ہیں اور پھر یکے بعد دیگرے سارے دیے روشن ہو جاتے ہیں۔ یہ گیت آج بھی بے حد مقبول ہے اس کا مکھڑا یہ ہے۔
دیا جلاؤ جگ مگ جگ مگ دیا جلاؤ۔
سہگل نے اس گانے میں گائیکی کا حق ادا کر دیا۔ دیئے تو جل گئے مگر تان سین کے جسم پر آبلے پڑ گئے اور وہ زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنے آبائی گھرچلا گیا۔ اس کا توڑ راگ میگھ ملہار بتایا گیا جو کہ گانا بہت مشکل تھا۔ تانی کی تو جان پربنی ہوئی تھی۔ اس نے جان کی بازی لگا دی اور میگھ ملہار گایا اور ایسا جی جان سے گایا کہ تان سین کے جھلسے ہوئے بدن پر مرہم سازی کا کام کیا اور وہ تندرست ہوگیا۔
اس گیت کا مکھڑا یہ تھا۔
برسو رے برسو رے۔
جب تک آسمان سے موسلادھار بارش نہ ہوئی ’’تانی‘‘ نے اپنی تانوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ آخر قدرت جوش میں آگئی۔ پہلے بوندا باندی شروع ہوئی اور پھر ایسی موسلا دھار بارش ہوئی کہ جل تھل ایک ہوگئے۔
اس فلم نے خصوصاً اس کی موسیقی نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ اس کی کہانی کی بنیاد بھی روایات پررکھی گئی تھی۔ یہ مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا کہ اس کہانی میں صداقت کتنی ہے اور مبالغہ کتنا ہے؟ دراصل اس فلم کو دیکھنے والوں نے ایک فرضی کہانی سمجھ کر ہی دیکھا تھاکیونکہ تان سین کی داستان بھی عام لوگوں کے نزدیک لوک کہانیوں جیسی ہی ایک داستان ہے جس میں مختلف واقعات اور روایات کو اکٹھا کر دیا گیا ہے پھر لوگ یہ بھی سنتے رہے تھے کہ تان سین کے بارے میں یہ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مسلمان تھا یا ہندو۔ اگر وہ ہندو تھا تو پھر گوالیار میں اس کا مقبرہ کیسے بن گیا اور اگر یہ اس کا مقبرہ نہیں تو پھر کس کا مقبرہ ہے اس طرح تان سین ایک متنازعہ اور خیالی داستان کا کردار بن کر رہ گیا تھا چند حضرات نے تو یہ بھی لکھ دیا کہ اکبری دربار میں تان سین نام کا کوئی گویا ہی نہیں تھا۔ اسی طرح کی متنازعہ کہانیاں ملا دو پیازہ کے بارے میں بھی مشہور ہیں۔ افسوس کہ ان کرداروں کے بارے میں کبھی باقاعدہ تحقیق و جستجو کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
بہرحال یہ حقیقت تھی یا افسانہ۔’’تان سین‘‘ ایک جانا پہچانا نام تھا اس لئے اس کی زندگی کے حالات پر مشتمل یہ فلم بے حد پسند کی گئی۔ سہگل کانام اس زمانے میں گائیکی کے لحاظ سے ایک طلسمی کشش رکھتا تھا۔ کیا چھوٹا، کیا بڑا۔ ہر شخص کے ایل سہگل کا دلدادہ اور اس کی آواز کا عاشق تھا۔ یہ کہنا غالبا ایک حد تک مبالغہ نہ ہوگا کہ اس زمانے میں سہگل کو گلوکار کی حیثیت سے قریب قریب اتنی ہی شہرت اور مقبولیت حاصل تھی جتنی کہ تان سین کے روایتی یا حقیقی کردار کو تھی۔ سہگل نے ہر قسم کے گیت ، غزلیں اور نغمے گائے اور ایسے گائے کہ کوئی دوسرا نہ گا سکا۔ سہگل کی آواز میں قدرتی طور پر درد، سوز و گداز اور انتہائی دکھ بھرا سریلاپن تھا۔ اس کی آواز سن کر دل پر چوٹ سی لگتی تھی پھر اس کا گائیکی کا اندازہ بالکل جدا تھا۔ آواز اور گائیکی کے اعتبار سے سہگل ایک قطعی منفرد گلوکار تھا۔ ویسا نہ اس سے پہلے کوئی پیدا ہوا نہ بعد میں پیدا ہوگا۔ یہ بجا کر اب سہگل کی گائیکی کا انداز متروک ہوگیا ہے۔ کئی کامیڈین اپنے پروگراموں میں اس کے انداز میں گیت گاکر سامعین کو ہنساتے ہیں لیکن یہ اس کی عظمت کا ایک ثبوت ہے۔ کسی دوسرے درجے کے فن کار کی نقل کون کرتا ہے۔ یہ درجہ بلند جسے ملنا ہوتا ہے اسی کو ملتا ہے۔ سہگل نے اس زمانے کے انداز گائیکی کو اپنایا تھا مگر سہگل نے غالب کی غزلوں کو بھی عوامی حلقوں تک پہنچا کر ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا تھا۔ ذرا تصور کیجئے کہ متحدہ ہندوستان میں سہگل کی گائی ہوئی غالب کی غزلوں پر ہر کوئی جھومتا تھا۔ غالب کی غزل تو اسکالرز کی سمجھ میں نہیں آتی۔ ایک عام کم علم یا قطعی ان پڑھ جاہل اسے کیا سمجھے گا لیکن ایک تو الفاظ کی نشست و برخاست اور ان کا حسن انتخاب اور اس پر سہگل کی آواز ایسا جادو جگاتی تھی کہ کشمیر سے راسکماری تک یہ غزلیں مقبول تھیں اور بڑے ذوق و شوق سے سنی جاتی تھیں۔ یہ اردو ادب کی خدمت تھی جو ریکارڈنگ کمپنیاں کر رہی تھیں اور اس سلسلے میں سہگل اور بیگم اختر جیسے فن کاروں کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
فلم ’’تان سین‘‘ نے سارے ہندوستان میں ہلچل مچا دی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں نے سنی سنائی داستانوں کو حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے دیکھ لیا۔ جس طرح سہراب مودی نے فلم ’’پکار‘‘ بنا کر شہنشاہ اور ملکہ نورجہاں کو زندہ انسانوں کا روپ دے دیا تھا اسی طرح فلم ’’تان سین‘‘ میں سہگل کے روپ میں عام لوگوں کو سچ مچ کا جیتا جاگتا ’’تان سین‘‘ نظر آگیا۔ وہ تکنیکی اعتبار سے قدیم، فرسودہ اور پسماندہ دور تھا مگر جب فلم بینوں نے تان سین کو دیپک راگ گاتے ہوئے سنا تو ان کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ایک سحر سا طاری ہوگیا تھا پھر جب دیپ جلنے شروع ہوئے تو تالیوں سے سارا ہال گونج اٹھا تھا۔ فلم تان سین میں ایک روایت اور داستان کو لوگوں نے اپنی آنکھوں سے حقیقت کا روپ دھارتے دیکھا اور ششدر رہ گئے۔ دیپک راگ گانے کے نتیجے میں ’’تان سین‘‘ جس جسمانی اذیت میں مبتلا ہوا، وہ بھی ایک جاں گداز منظر تھا۔ سہگل نے اس تکلیف اور درد کی تاثرات کے ذریعے بھرپور عکاسی کی تھی۔ ہر دیکھنے والے کا دل تان سین کی ہمدردی میں دھڑک رہا تھا۔
اس کے بعد ’’تانی‘‘ کا کردار ابھر کر سامنے آیا۔ خورشید اپنے دور کی مقبول اور کامیاب ہیروئن تھیں۔ خوش شکل، دراز قد، تاثر سے بھری ہوئی آنکھیں۔ اس پر آواز ایسی کہ جیسے شہد کے چھتے میں سے شہد ٹپک رہا ہو۔
تان سین کی بے چارگی اور تکلیف پر تانی کی بے چینی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس درد کی دوا صرف میگھ ملہار راگ ہے۔ یہ فلم کا دوسرا کلائمکس تھا جب تانی نے کھلے آسمان تلے آبلوں سے بھرے ہوئے تان سین کو چارپائی پر لٹایا اور میگھ ملہار شروع کیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ راگ واقعی پر اثر ہوگا یا نہیں مگر خورشید نے اس گانے کو ایسا دل لگا کر گایا کہ بالآخر قدرت کو بھی ترس آگیا۔ پہلے صاف آسمان پر بادل گھر آئے جنہیں دیکھ کر تانی اور فلم بینوں کو یکساں طور پرمسرت ہوئی پھر بادل گرجنے لگے۔ بجلی چمکنے لگی۔ جب بوندا باندی شروع ہوئیت و ایک بار پھر سینما ہال جس میں سکوت مرگ طاری تھا یکایک تالیوں سے گونج اٹھا پھر موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ بارش نے تان سین کے زخمی بدن کو نہلا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے جسم کے آبلے غائب ہوگئے اور وہ مکمل طور پر تندرست ہوگیا۔ فلم تان سین کی یہ کہانی تھی جو کہ سادہ لیکن موثر انداز میں پیش کی گئی تھی۔ا س زمانے میں اس قسم کے موضوعات پر فلمیں بنائی جاتی تھیں جو فلم بینوں کی معلومات میں اضافہ کرتی تھیں اور انہیں روحانی مسرت بھی فراہم کرتی تھیں۔
(جاری ہے... اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)