اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 47

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 47
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 47

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک مرتبہ سلطان غیاث الدین تغلق نے مولانا ظہیر الدین لنگ سے پوچھا۔ ’’ آپ نے شیخ رکن الدینؒ کی کوئی کرامت دیکھی ہے؟
مولانا نے فرمایا۔ ’’ ایک بار جمعہ کے روز بہت سے لوگ اُن کی قدمبوسی کے لیے جمع تھے میں نے دل میں خیال کیا کہ شاید شیخ کے پاس کوئی تسخیر کا عمل ہے ۔ میں بھی عالم ہوں لیکن میری طرف کوئی توجہ نہیں کرتا۔ میں نے سوچا کہ اگلے دن صبح کو شیخ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ پوچھنا چاہیے کہ وضو کرتے وقت کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے میں کیا حکمت ہے؟‘‘ رات کو جب سویا تو خواب میں دیکھتا ہوں کہ شیخ مجھ کو حلوا کھا رہے ہیں جس کی شیرینی تک میرے حلق میں رہی۔ میں نے خیال کیا کہ اگر یہی کرامت ہے تو شیطان بھی عوام کو اسی طرح گمراہ کرتا ہے ، صبح سویرے جا کر یہ مسئلہ ضرور پوچھنا چاہیے۔
صبح کو جب میں شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا تو مجھے دیکھ کر فرمایا۔ ’’ میں تمہارا ہی منتظر تھا۔‘‘ پھر چند لمحوں کے سکوت کے بعد فرمایا۔
’’ جنابت دو قسم کی ہوتی ہے جنابتِ دل اور جنابت تن ، جنابت تن وہ ہے جو بیوی کے ساتھ صحبت کرنے سے حاصل ہو اور دل کی جنابت نالائقوں کی صحبت سے ہوتی ہے۔ جنابت تن تو پانی سے پاک ہوجاتی ہے لیکن دل کی جنابت آنسوؤں سے دھوئی جاتی ہے۔
پانی میں تین صفتیں ہونی چاہئیں کہ اس کو پاکیزہ اور جنابت کو دور کرنے والا کہا جا سکے اور وہ تین صفتیں لَون (رنگ) طعم(مزہ) اور ریح(بُو) ہیں۔ اس لیے شریعت نے وضو میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کو مقدم رکھا ہے۔ تاکہ کلی سے مزہ معلم ہوجائے اور ناک میں پانی ڈالنے سے اس کی بوکا پتہ چل جائے۔‘‘
شیخ کی ان باتوں سے میرے بدن سے پسینہ جاری ہوگیا۔ پھر آپ نے فرمایا۔ ’’ جس طرح نبی کی صورت میں شیطان ظاہر نہیں ہوسکتا اسی طرح شیخ حقیقی کی صورت میں بھی شیطان نمودار نہیں ہوسکتا کیونکہ شیخ حقیقی کو نبی کی کامل متابعت حاصل ہوتی ہے۔ تم علوم قال سے تو مالا مال ہومگر علوم حال سے قطعی بیگانہ اور خالی ہو۔‘‘ شیخ رکن الدین کی ان باتوں نے مجھ پر خاطر خواہ اثر ڈالا۔
***

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 46پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک مرتبہ ابو بکر ثبلیؒ نے اپنے نئے کپڑے جسم پر سے اُتار کر جلاڈالے۔ اس پر لوگوں نے عرض کیا کہ شریعت میں بلاوجہ مال کا ضیاع حرام ہے۔‘‘
آپ نے فرمایا۔ ’’ قرآن نے کہا ہے کہ جس شے پر تمہارا قلب مائل ہوگا ہم اس کو بھی تمہارے ساتھ آگ میں جلا دیں گے ۔ چونکہ میرا قلب اس وقت نئے کپڑوں پر مائل ہوگیا تھا۔ اس لیے میں نے ان کو دنیا میں ہی جلا ڈالا۔‘‘
***
حضرت سہل بن عبداللہ تستریؒ فرماتے ہیں کہ خواب میں میں بہشت کے تین بزرگوں سے ملاقات کر کے یہ سوال کر رہا ہوں کہ دنیا میں سب سے ڈراؤنی شے آپ کو کیا پیش آئی۔‘‘
انہوں نے جواب دیا۔ ’’ کہ خاتمہ کا ڈر سب سے زیادہ تھا۔‘‘
پھر ایک روز خواب میں میں نے ابلیس سے پوچھا۔ ’’ تیرے نزدیک سب سے زیادہ پریشان کن کون سی شے ہے۔‘‘
اس نے جواب دیا ۔’’ بندے کا خدا کے ہمراہ راز و نیاز۔‘‘
ایک مرتبہ میں نے ابلیس کو پکڑ کر پوچھا کہ جب تک تو خدا کی واحدانیت کے بارے میں نہیں بتائے گا۔ تجھ کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
چنانچہ اس نے اس قدر تشریح کے ساتھ معارفِ واحدانیت بیان کیے کہ اس انداز میں کوئی عارف بھی بیان نہیں کر سکتا۔ ‘‘ (جاری ہے)

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 48 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں