انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 11
ملائشیاء کی معیشت میں سیکس انڈسٹری کا بھی ایک اہم حصہ ہے ۔ وہاں ڈیڑ ھ لاکھ سے زائد جسم فروش عورتیں اس نڈسٹری سے وابستہ ہیں ۔ ان میں سے 8 سے 10ہزار کی تعداد صرف کو المپور میں پائی جاتی ہے ۔ آمدن کے نئے ذرائع پیدا کیے جا رہے ہیں جن میں فٹنس کلب اور تفریح کے ادارے شامل ہیں ۔ ملائیشیاء کی ترقی کرتی ہوئی معیشت کے گذشتہ ایک عشرے سے دنیا میں چرچے ہورہے ہیں ۔ اس میں غیر ملکیوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے ملاشین حکومت کی کار کردگی زیرو ہے ۔ اسے دوبار مسلسل سر کل 2 میں رکھا گیا ہے ۔تاہم امریکی حکومت اس کی حالیہ کوششوں کو سہراتے ہوئے مطمئن نظر آتی ہے ۔ حکومت 2010سے انسداد انسانی سمگلنگ کے قوانین کو موثر بنانے کی کو شش میں مصروف ہے اور عوامی آگاہی کے پروگرام تسلسل سے جاری ہیں ۔ لیکن حکومتی اہل کاروں کی اس جرم میں مداخلت کی صحیح طریقے سے تحقیق نہیں کی جاتی ۔ ملک میں سمگلنگ کے شکار افراد کو مناسب سہولتیں مہیا نہیں کی جاتیں ۔
ملائشیا میں اگرچہ انسانی سمگلنگ کی تمام صورتیں قانوناً ممنوع ہیں اور جبر کے ذریعے کسی شخص کو اس کی مرضی کے خلاف کام کرنے پر مجبور کرنا بھی جرم قرار دیا جاچکا ہے ۔اس کے باوجود یہ جرم کسی نہ کسی شکل میں آج بھی ملائشیا میں پایا جاتا ہے ۔ جبری مشقت اور جنسی استحصال کا باعث بننے والوں کے خلاف 2010 میں فر دِ جرم بھی عائد کی گئی ۔ اگرچہ ایسے افراد کی تعداد بہت کم تھی جن کے خلاف یہ کارروائی کی گئی لیکن بین الاقوامی سطح پر اس اقدام کو بہت سراہا گیا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ استحصال کا سبب بننے والے ایک دوسرے عنصر ،یعنی پاسپورٹ کی ضبطگی کے خلاف ابھی تک کوئی قانون پاس نہیں ہوسکا ۔ پولیس ایسے مقدمات کی تفتیش نہیں کرتی جو پاسپورٹ کے متعلق ہوتے ہیں ۔ حال ہی میں ملاشین ہوم منسٹری نے 3 سو ایسی ریکروٹنگ کمپنیوں کا کھوج لگایا ہے جو انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں ۔ملاشین پولیس اور ایمیگر یشن افسران کی ملی بھگت سے اس جرم میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے ۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 10پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایشیا ء سمیت دنیا کے تمام خطوں میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر اگرچہ کوششیں جاری ہیں لیکن پھر بھی یہ جرم روز بر وز بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ عورتوں اور بچوں کے کا رو بار ی جنسی استحصال کے خلاف جدو جہد کے سلسلے میں متعد د سرکاری وغیرسرکاری تنظیموں نے کئی ایک پروگرام وضع کیے اور ان کو نافذ العمل بھی بنایا تاکہ اس جرم کو روکا جاسکے اور اس کے شکار افراد کی بحالی کو یقینی بنایا جاسکے ۔ مثلاً’’انصاف ، امن اور مرکز برائے تخلیق و سالمیت کے فروغ‘‘کی ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم جس کا انتظام و انصر ا م ’’سو سائٹی آف دی ڈیو ائن ‘‘کے ہاتھ میں ہے نے کا روباری جنسی استحصال کی روک تھام کے لیے تین منصو بے شروع کیے ۔ اس کے علاوہ ایک دوسری تنظیم نے ’’صحت یابی کے بعد احتیاط‘‘ کے نام سے ایک الگ منصوبے کا افتتا ح کیا جس کا مقصد جسم فروش عورتوں کے وقار اور سالمیت کا خیا ل رکھتے ہوئے ان کو پیشہ ورانہ تربیت دیکر ہنر مند بنا نا تھا تاکہ وہ قومی دھارے میں شامل ہو کر ایک خود مختار معاثرتی زندگی گزار سکیں۔ ان دونوں منصوبوں کے لیے جرمنی کی ایک تنظیم ’’Karl Kuebel sTif Tung‘‘نے فنڈز مہیا کیے۔ دنیاکی مختلف تنظیموں نے ایشیائی ممالک میں ایسی کروڑوں ستم رسیدہ اور استحصال کا شکار عورتوں اور جنسی زیادتی سے دوچار بچوں کی بحالی کے لیے سول سو سائٹی کی تنظیموں اور مقامی حکومتوں کی شراکت سے کئی ایک تا ئیدی اور شراکت داروں کی استعداد بڑھانے کے پروگرام تشکیل دئیے ہیں ۔ اقوام متحدہ نے بھی مقامی حکومتوں کی شراکت سے متعد د ایسے منصوبے شروع کر رکھے ہیں جو سمگل شدہ افراد کے حقوق کی بحالی اور ان کے محفوظ مستقبل کے لیے مفید ثابت ہو سکیں ۔ ایسے بچوں کی زندگیوں ،جو استحصال اور سمگل ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں میں بہتری لانے اور ان کو با وقار شہری بنانے کے لیے مواقع فراہم کرنا بھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ حال ہی میں یونسیف اور منیلا کے باہمی اشتراک سے ایسے منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن سے انسانی سمگلنگ (خصوصاًبچوں کی )پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ’’انٹر نیشنل جٹس مشن ‘‘نے اپنی کو ششو ں میں سمگلنگ کے شکارافرادکی دیکھ بھال اور بحالی کے بعد احتیاط کرنے کے ساتھ دیگر شراکت داروں کی استعداد کا ر بڑھانے اور ان کو متحرک کرنے کو بھی شامل کر رکھا ہے ۔ یہ منصوبہ لینگین میں شروع کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ شفیرڈسسٹر ز کا کام بھی قابل تعریف ہے جو جسم فروش عورتوں کی بقاء کے لیے کام کر رہی ہیں ۔ ان کے منصوبے میں سب سے اہم کام ان جسم فروش عورتوں کی چھانٹی کرنا ہوتاہے جو شیفرڈ کے مرکز برائے بحالی میں بھیجی جاتی ہیں ۔ یہ ان مخصوص علاقو ں میں کام کرتی ہیں جہا ں عورتوں کی اکثریت ا س گناہ کی دلدل سے باہر نکلنا چاہتی ہے جوان سے جبر کے ذریعے کرایا جاتا ہے۔ اس تنظیم نے یاتی اور لیلوکے علاقو ں میں سمگلنگ کے شکار افراد کی بحالی کے لیے طویل المدت پالیسیاں اپنا رکھی ہیں۔ سی ۔بی ۔ایل(چلڈرن لیگل بیورو)کی کوششوں کو بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتا۔ یہ ادارہ ایسے بچوں کے لیے مفت قانونی امداد کا انتظام کرتا ہے جو سمگل کیے جاتے ہیں یا جن کے سمگل ہونے کا احتمال ہوتا ہے ۔بلاشبہ مذکورہ بالا اداروں اور تنظیموں کا قیام سمگل شدہ افراد کے تحفظ اور بحالی میں مثبت کردار اداکررہے ہیں لیکن یہ اتنے وسیع عالمی نیٹ ورک کے نر غے میں آئے ہوئے انسانوں کی بحالی کے لیے اپنے حجم اور استعداد کے لحاظ سے بہت کم ہیں ۔ جنسی مقاصد کے لیے انسانی سمگلنگ ایک منظم جرم بن چکا ہے ۔اس کی روک تھام یا بنچ کنی کے لیے ان تمام ریاستوں ،اداروں ، تنظیموں اور دیگر شراکت داروں کی متفقہ کوششوں کی ضرورت ہے جو اس دنیا کو عورتوں اوربچوں کے لیے رہنے کی بہتر جگہ بنانے کے خواہشمند ہیں ۔
انڈیا ۔ انسانی سمگلنگ اور عورتوں کا استحصال
تعارف اور سیاسی ، معاشی اور انتظامی صورتحال
اس سے پہلے کہ انڈیا میں ہونے والی انسانی سمگلنگ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا تذکرہ کیا جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق بنیادی معلومات کو اختصار کے ساتھ بیان کر دیا جائے۔ انڈیا براعظم ایشیاء کا ہی دوسرا بڑا ملک نہیں بلکہ دنیا کا (بلحاظ آبادی) بھی دوسرا بڑا ملک ہے۔ اور وہاں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے جس کی وجہ سے اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ یہ جنوبی ایشیاء میں واقع ہے اور اس کی سرحدیں پاکستان، چین، نیپال، برما اور بنگلہ دیش سے ملتی ہیں۔ اس کی آبادی ایک ارب 20 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ذیل میں انڈیا کے حوالے سے ایک رپورٹ بیان کی گئی ہے جس سے اس بڑی جمہوریت کے خدوخال اور باشندوں کے معیار زندگی کے متعلق اندازہ لگایا جاسکے گا۔
انڈیا کو اس وقت زائد آبادی کے مسئلے کا سامنا ہے جو سوا ارب نفوس تک پہنچ چکی ہے۔ یہ نہ صرف دنیا کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے بلکہ فی کس مربع کلومیٹر آبادی کے اعتبار سے اس کا دنیا میں 33 واں نمبر ہے۔ یعنی اس کے مقابلے میں نیدر لینڈ، جنوبی کوریا اور جاپان کی آبادی اپنے رقبے کے لحاظ سے کم گنجان آباد ہے۔ انڈیا کی سابق وزیراعظم اندراگاندھی نے 1970ء کے آغاز میں جبری ضبط تولید کا پروگرام شروع کیا مگر وہ کامیاب نہ ہوا۔ اس پروگرام کے مطابق شادی شدہ مرد جس کے دو یا دو سے زیادہ بچے ہوں اس کے تولید کا اتلاف ضروری قرار دیا گیا۔ مگر بہت سے غیر شادی شدہ نوجوان، سیاسی مخالفین اور ناخواندہ لوگ بھی یقین کر بیٹھے کہ ان کا بھی اتلاف تولید ہوگا۔
انڈیا کی معیشت اور غربت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انڈین کی آبادی کا تیسرا حصہ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ دنیا کی غریب ترین آبادی کا تیسرا حصہ بھی انڈیا میں رہتا ہے۔ حال ہی میں انڈیا کی متوسط آبادی نے کچھ ٹارگٹ حاصل کر کے معیشت کو سہارا دیا ہے لیکن حقیقی طور پر وہاں غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا میں (456 ملین) 45 کروڑ سے زائد افراد جو کل آبادی کا 41.6 فیصد حصہ ہے غربت میں مبتلا ہے۔ یعنی ان کی یومیہ آمدنی 1.25 امریکی ڈ الر سے بھی کم ہے۔ ورلڈ بینک نے مزید اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پوری دنیا کی 33 فیصد غریب آبادی انڈیا میں سکونت پذیر ہے۔ اس کی 82 کروڑ 8 لاکھ آبادی کی یومیہ آمدنی 2 امریکی ڈالر سے کم ہے جو افریقہ کے ذیلی صحارہ ممالک کے مقابلے میں بھی بہت کم ہے۔ ان کی یومیہ آمدنی 7۔2.فیصد ہے۔
انڈیا میں دولت کی تقسیم بھی غیر مساوی ہے۔ سب سے زیادہ آمدنی والے 10 فیصد گروپس کے پاس ملک کی 33 فیصد دولت پائی جاتی ہے۔ معاشی ترقی میں اہم پیش رفت کے باوجود آبادی کا 1/4 حصہ حکومت کی مقرر کردہ غربت کی حد عبور نہیں کرسکا جو 0.40 امریکی ڈالر یعنی یومیہ 20 روپے سے بھی کم کماتا ہے۔ 2004-05ء میں قومی سطح پر وضع کردہ معاشی اشاریوں میں 27.5 فیصد لوگوں کو غریب قرار دیا گیا۔ لیبر کلاس یعنی مزدور طبقہ کا ایک بڑا حصہ روزگار اور سماجی تحفظ کے بغیر زندگی گزار رہا ہے۔ انڈیا میں واٹر سپلائی اور سینی ٹیشن کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ سینی ٹیشن کی مناسب سہولت کا فقدان انڈیا میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ 2008ء میں یونیسف کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف 31 فیصد افراد سینی ٹیشن کی سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایک دوسری رپورٹ میں یونیسف نے نشاندہی کی ہے کہ انڈیا میں واقع ہونے والی ہر دس اموات میں سے ایک حفظان صحت اور سینی ٹیشن کے غیر تسلی بخش نظام کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ڈاہریا (بیماری) کی وجہ سے بیس اموات میں سے ایک واقع ہوتی ہے۔ انڈیا میں یہ بیماری عام ہے اور زیادہ اموات اس کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)