دھرنا بھیگ گیا؟
یہ عوام جو اب تینوں میں ہیں نہ تیرہ میں، پوچھتے ہیں،یہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کیا ہوتے ہیں،جو نیپرا کی سفارش اور حکومت کی منشاء اور منظوری سے ہر ماہ بجلی کے بلوں میں صارفین سے وصول کئے جاتے ہیں،ان چارجز کے ذریعے ہر ماہ حکومتی خزانے میں اربوں روپے جمع ہوتے ہیں،جو ان عوام ہی کی جیب سے نکلتے ہیں،اس پر وزیراعظم اور اراکین کابینہ فخر سے کہتے ہیں کہ خسارہ کم کیا گیا ہے،کبھی پٹرولیم کی مصنوعات کے نرخوں میں ہونے والی جائز کمی صارف تک پہنچانے کی بجائے خزانے میں شامل کر لی جاتی ہے اور ہرماہ بجلی کے بلوں میں بھی اضافہ کر دیا جاتا ہے،جو پہلے ہی 20سے21روپے فی یونٹ دی جا رہی ہے۔اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ180 یونٹ کا بل ڈھائی ہزار سے زیادہ آیا،اس میں سبسڈی بھی دی گئی، جبکہ 320 یونٹ کا بل ساڑھے چھ ہزار ہے،اس میں 1500سے زائد سبسڈی ہے،اصل میں یہ بل 8ہزار روپے سے زیادہ تھا کہ300یونٹ سے صرف20یونٹ زیادہ خرچ ہوئے۔یہ بھی میٹر ریڈر کی مہربانی ہو سکتی ہے، اس بار دو روپے 37 پیسے یونٹ وصول کرنے کا اعلان کیا گیا،جو ستمبر کے مہینے میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے عائد کئے گئے ہیں،حالانکہ ماہِ ستمبر میں پٹرولیم کے نرخ کم ہوئے اور حکومت نے یہ ریلیف اپنے کھاتے میں ڈال لی تھی۔
یہ تو دِل کے پھپھولے ہیں جو آج ہی صبح وصول ہونے والے بلوں کے باعث پھوڑ لئے ہیں،ورنہ خبر تو دھرنے کی گرم ہے، ان دھرنا والوں کے ساتھ قدرتی ستم ظریفی بھی ہو گئی کہ اسلام آباد میں بارش نے رنگ جمایا، درخت دھلے تو ”دھرنا بھیگ“ گیا، حاضرین پریشان ہوئے اور پناہ تلاش کرنے لگے، اب شامیانے اور خیمے تو بھیگ کر بھی سہارا نہ دے سکے،لیکن میٹرو کی سیڑھیاں سٹیشن اور سرکار کی طرف سے جمع کئے گئے کنٹینر ضرور سہارا دے گئے۔ یہ دھرنے والے ویسے ”ڈھیٹ لوگ“ ہیں کہ اس پریشانی کے باوجود بیٹھے ہوئے ہیں،حالانکہ سردی بھی اتر آئی ہے اور بیشتر کے پاس تو گرم کپڑے بھی نہیں وہ معمول کی چادر لئے ہوئے ہیں،جو ان کے کندھے پر ہوتی ہے، اگر ہمارے میڈیا والے بھائی ٹھیک سے جائزہ لیتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ دھرنا دینے والوں کی اکثریت محنتی لوگوں کی ہے، جو جفا کش ہیں اور سردی گرمی کی صعوبتیں بھی برداشت کرنے کے عادی ہیں،اِس لئے وہ کہیں نہیں گئے اور نہ جا رہے ہیں کہ ان کو تو عقیدت یہاں لائی ہے اور وہ امیر کی اطاعت میں موجود ہیں اور اسی کے حکم سے واپس ہوں گے چاہے ان تین حضرات کی طرح کچھ اور بھی دُنیا سے گذر جائیں، جو وفات پا گئے ہیں اور ان کی نمازِ جنازہ بھی دھرنا والوں نے دھرنے ہی میں ادا کی۔
اس دھرنا کی وجہ سے اسلام آباد میں جو ”تبدیلی“ واقع ہوئی اس کا بھی پورا پورا ادراک نہیں کیا گیا،پشاور موڑ کے اردگرد کے سیکٹروں والے دکانداروں نے بتایا ہے کہ یہ دھرنے والے جو ہیں یہ ان کی ساری گندم کھا گئے اور دودھ کے ڈبے پی گئے ہیں،اب گندم کی قلت اور ہنگامی درآمد کے باعث آٹا چار روپے فی کلو تک مہنگا ہو گیا اور دودھ پر بھی ہنگامی سفری اخراجات کا بوجھ پڑا ہے،ایسا کیوں نہ ہوتا کہ یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں ہیں، دھرنا والے تو لاکھوں کہتے ہیں لیکن دو تین درجن کہنے والوں (محترم واوڈا نے کہا تھا) کے خود اپنے کولیگ اور معتبر وزیر داخلہ نے ان کو 50ہزار سے زیادہ تسلیم کر لیا ہے۔
یہ تو تازہ ترین حالات کی ایک جھلک ہے، اب بات یہاں آ کر رُک گئی کہ ”سانپ کے منہ میں چھپکلی“ والا محاورہ صادق آتا ہے کہ نہ اگلے بن رہی اجور نہ ہی نگلنے کا سلسلہ ہو رہا ہے۔فریقین بات چیت پر آمادہ ہوئے تو اطمینان ہوا کہ چلو اب بہتر نتیجہ نکلے گا۔یوں بھی چودھری برادران تو ماضی میں دھرنا کے مہتمم کے ساتھ انتہائی خوشگوار اور گرم جوشی کے تعلقات رکھنے والے ہیں، درمیان میں آئے ہیں تو توقع زیادہ ہو گئی ہے۔چودھری شجاعت حسین کے والد چودھری ظہور الٰہی(مرحوم) اور مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود کے تعلقات برادرانہ تھے تو ایسا ہی تعلق مولانا فضل الرحمن اور چودھری شجاعت کا بھی ہے، اسی لئے تو مولانا ان کی ایک کال پر بات کرنے پر رضا مند ہو گئے دیکھئے یہ مصالحانہ کوشش کیا رنگ لاتی ہے۔
جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو اس کی صفوں میں مطالبات پر اتفاق ہونے کے باوجود دھرنے کے حوالے سے واضح تفریق موجود ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) بوجوہ دھرنے سے اتفاق نہیں رکھتیں کہ ہر دو جماعتوں نے 2014ء کے عمران اور پھر طاہر القادری والے دھرنوں کی بھرپور مخالفت کی اور پھر جب مولانا فضل الرحمن نے 2018ء کے انتخابی عمل کے بعد اسمبلیوں کے حلف کا بائیکاٹ کر کے مستعفی ہو جانے کی تجویز پیش کی تو پیپلزپارٹی نے پہلے مسلم لیگ (ن) سے بات کر کے رضا مند کیا اور پھر مولانا فضل الرحمن اور دوسری جماعتوں سے بھی بات کی،چنانچہ مسلم لیگ(ن) کے مان جانے کے بعد باقی جماعتیں بھی مانگ گئی تھیں اور اس پارلیمینٹ کا حصہ بن گئیں، جسے اب سلیکٹڈ کہا جا رہا ہے اور اس میں یہ سب بھی ہیں، حتیٰ کہ خود مولانا کی جماعت کے لوگ بھی تو رکن ہیں۔یوں بنیادی مسئلہ اسی اصول کا ہے تاہم مطالبات پر اتفاق رائے کی وجہ ہی سے دونوں جماعتوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ مولانا کے ساتھ ہیں اور اگر ان کے ساتھ کوئی ”زیادتی“ ہوئی تو برداشت نہیں ہو گی اور شاید مجبور ہو کر دھرنے میں بھی شرکت کا فیصلہ ہو جائے،ابھی تک تو ایسا ہو نہیں سکا۔
جہاں تک متحدہ اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم کے استعفیٰ کے مطالبے کا تعلق ہے تو یہ واضح ہو چکا کہ ماضی میں یہ مطالبات ہوتے رہے اور پورے نہیں ہوئے،مطالبہ کرنا نہ تو غیر جمہوری اور غیر آئینی ہے نہ ہی غیر پارلیمانی، البتہ اس پر مکمل ڈیڈ لاک کبھی نہیں ہوا،حتیٰ کہ اس دھرنے کی مماثلت ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستانی قومی اتحاد کی تحریک سے بھی تلاش کی گئی اور محترم مجیب الرحمن شامی نے عینی شاہد کے طور پر تفصیل بھی بیان کر دی،ہم صرف اتنا اضافہ ہی کریں گے کہ 1977ء میں مذاکرات ہوئے، قومی اتحاد کے 32 مطالبات تھے، ان میں سرفہرست وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ مطالبہ موخر ہوا باقی سب مان لئے گئے کہ آئینی دشواری تھی اگر وزیراعظم ہی نہ ہوتے تو الیکشن کیسے ہوتے(یہ تب کی بات تھی،اب تو نگران حکومت بنتی ہے) بہرحال بوجوہ یہ بیل بھی منڈے نہ چڑھی اور جنرل ضیاء الق نے شب خون مار لیا اور نتیجہ بھٹو کی پھانسی کا برآمد ہوا،اب مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ عمران کوئی بھٹو سے زیادہ بڑا لیڈر نہیں،بھٹو نے بھی نئے الیکشن مان لئے تھے۔مولانا نے استعفے کی بات نہیں کی کہ ان کو حقیقت کا علم ہے۔
بہرحال بحران بڑا ہے، مذاکرات اپنی جگہ اور وزیراعظم کی طرف سے گولہ باری کی ہدایت بھی موجود،ان کے وزرا طنز کے تیر چلا رہے ہیں،اور خود وزیراعظم بھی نہیں رُک پا رہے،حالانکہ فضا کو بہتر بنانا انہی کی ذمہ داری ہے، جو ان کو پوری کرنا چاہئے۔ ورنہ جہاں تک حالات اور پس منظر وغیرہ کا تعلق ہے تو کوئی ابہام باقی نہیں،کسی بھی عام شہری اور تھڑے والے(Man of The Street) سے پوچھ لیں وہ آپ کو بتا دے گا کہ کھیل کیا اور کیوں؟ براہِ کرم! حوصلہ افزائی کرنے والوں سے اپیل ہے کہ وہ اس سلسلے کو ختم کرائیں کہ نقصان کا باعث ہے۔