”ناکامی مبارک!“
محض خواب دیکھنے سے کچھ نہیں ہوتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ خواب دیکھے بغیر بھی کچھ نہیں ہو سکتا۔ جب کوئی خواب ہی نہ ہو تو تعبیر کیسی؟ زندگی، زندگی ہے۔ پھولوں کی سیج نہ کانٹوں کی مالا! پختہ اور شکستہ!! دکھ،سکھ اور کامیابیوں، ناکامیوں سے لبریزکتنے لوگ ہیں، جو ہمیں زندگی گزارنے کے اصول پڑھاتے، بلکہ سمجھاتے چلے آتے ہیں، لیکن نئے نہیں، بالکل نئے انداز میں یہ فریضہ مارک منیس نے سرانجام دیا ہے۔ مارک منیس؟ جی ہاں! ان کا تعارف ہمیں ایم وسیم بٹ نے کروایا۔موصوف مصنف، ادیب، معاذ ہاشمی کے بہنوئی ہیں ……”مسائل کے ساتھ جینا سیکھیں“…… ایک ایسی ہی کتاب ہے جس کا ایم وسیم بٹ کے ذریعے معلوم ہوا۔ یہ بنیادی طور پر انگریزی سے ترجمہ ہے۔
ایک ایسا ترجمہ، جس پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ انہوں نے ترجمے کا حق ادا کر دیا اور اسے بلاشبہ درجہ ء تخلیق تک پہنچا دیا۔ مترجم مذکور کے کئی حوالے ہیں۔ ڈائریکٹر پبلک ریلیشن آفیسر لاہور پولیس، سابق سینئر سب ایڈیٹر نوائے وقت، روزنامہ ”دن“ سے بھی وابستہ رہے۔ محکمہ صحت میں بھی ڈی جی پی آر او منڈی بہاؤالدین رہ چکے ہیں۔پنجاب کے مردم خیز خطے ”لالہ موسیٰ“ کے قابلِ فخر سپوت ہیں۔”گجرات کی بات“ ہو تو اسحاق آشفتہ کی یاد لازم ٹھہری۔
ایم وسیم بٹ نے متعدد کتب کو اردو کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ بے حد طریقے اور سلیقے کے ساتھ! ان میں راجا پورس اور پنجاب کا بٹوارہ بھی شامل ہیں۔ بولتی کتابیں بی اے ناصر ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس لاہور اور ”سیلف ہیلپ“کے تناظر میں جانے پہچانے قاسم علی شاہ نے ان کے بارے میں معتبر الفاظ کے ساتھ اظہار خیال بھی کیا ہوا ہے!کتاب کے مصنف کا طرز استدلال و بیان روایت شکن ہی نہیں، روایت ساز ہے! وہ کہتا ہے کہ کامیابی، ناکامیوں میں چھپی ہوئی ہے جس نے ناکامی کا ہی ذائقہ نہیں چکھا، وہ کامیاب کیونکر ہو گا، مطلب؟ ناکامی درحقیقت کامیابی کا اٹل قانون ہے اور زندگی کے راستوں میں پُرجوش معاون! گویا ناکامی سینے سے لگائی جانے والی شے ہے۔ اس سے شرمانا کیا؟ پچھتانا تو بہت بڑی حماقت ہو گا۔ اس کتاب نے بیسٹ سیلر ہونے کا شاید ریکارڈ قائم کیا ہے۔
ہر وہ شخص جو کسی بھی شعبے میں اپنے تئیں ناکام سمجھتا ہے یا ناکامیوں نے اس کے گھر کا دروازہ دیکھ لیا ہوا ہے،اسے ناکامی مبارک! اس لئے کہ اب اس کے لئے کامیابی کے موسم کا آغاز ہو چکا ہے۔ ناکامی کی چادر میں ہی تو کامیابی کے پھول رکھے ہوتے ہیں۔ مَیں نے کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو حیران رہ گیا، یہ معاشرتی رویوں کی سائنس ہے۔ کتاب بتاتی ہے کہ ہم اگر کامیاب نہیں ہوتے تو صرف اس لئے نہیں ہوتے کہ ہم کامیاب ہونا ہی نہیں چاہتے! جو کوئی منفی رویوں کو جھٹک دیتا اور اندھیرے میں روشنی کے کاروبار کا شغف رکھتا یا عادی ہو تو وہ بس ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھتا جائے گا۔
یہ قانون قدرت ہے کہ ناکامی میں کامیابی رکھ دی گئی ہے۔ ”خضر ریڈرز“ (ناشر) مبارک باد کا مستحق ہے۔آخر میں کتاب کی ایک اہم خامی! اے کاش! یہ بہت پہلے چھپ جاتی۔ ہاں، اس پر ناشر و مترجم کو معاف کیا جا سکتا ہے، کیونکہ خود انگریزی میں چھپے اسے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔