شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ پشاور بھی آتے

برطانوی شاہی جوڑے شہزادہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن نے پچھلے دنوں پاکستان کا دورہ کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے معزز مہمانوں کاائر پورٹ پرخیر مقدم کیا۔سربراہ مملکت ڈاکٹر عارف علوی، برطانوی پارلیمان کے سابق رکن اور موجودہ گورنر پنجاب چودھری غلام سرور اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے ان سے ملاقات کی اور وزیراعظم عمران خان نے ان کے اعزاز میں ضیافت دی……اپنے دورے کے دوران شاہی جوڑا اسلام آباد میں ماڈل گرلز ہائی سکول گیا،وہاں بچوں سے ملا، رکشے میں بیٹھ کر یادگار پاکستان پہنچا اور برطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈیو کی طرف سے اپنے اعزاز میں دئیے گئے عشائیے میں شرکت کی۔لاہور میں مہمان جوڑا شاہی مسجد، ایس او ایس گاؤں، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور کرکٹ اکیڈمی دیکھنے گیااور چترال میں کیلاش قبیلے کے روایتی رقص سے محظوظ ہوا۔ شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ جہاں بھی گئے لوگوں میں گھل مل گئے۔
کیٹ مڈلٹن نے خوبصورت پاکستانی لباس زیب تن کر کے دو تہذیبوں کوقریب تر کر دکھایا۔ دوسری طرف ہماری حکومت اور عوام نے شاہی جوڑے کی مہمان نوازی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہونے دیااور ایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مضبوط تاریخی،ریاستی اور عوامی رشتے موجودہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ پاکستانی برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ان کا وہاں کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار رہا ہے۔اُن کا وہاں جانا دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوا تھا۔ان میں زیادہ تر مزدورتھے جو کارخانوں میں کام کرنے لگے۔ یہ جفا کش جنگ سے تباہ حال برطانوی معیشت کا پہیہ چلانے لگے اورملک ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا۔رفتہ رفتہ یہ لوگ وہاں زندگی کے دوسرے شعبوں سے بھی منسلک ہوئے۔ آج کئی پاکستانی نژاد برطانیہ میں اہم عہدو ں پر فائز ہیں۔ دارالامراء میں چار اور دارالعوام میں بارہ پاکستانی نژاد ارکان ہیں۔خود چودھری غلام سرور چار بار پارلیمان کے رکن رہ چکے ہیں۔ آج کل ان کا بیٹا اَنس سرور سکاٹ لینڈ کی پارلیمان کارکن ہے۔
ایک غریب پاکستانی امان اللہ ساٹھ کی دہائی میں برطانیہ گیا۔ وہاں بس ڈرائیورکی ملازمت کی۔ آج اُس کا بیٹا صادق خان لندن کا میئر ہے۔ ایک اور پاکستانی عبد الغنی وہاں گیا۔ بس ڈرائیور بنا۔ آج اُس کا بیٹا ساجد کریم وزیر داخلہ ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ ایک وقت میں پاکستانی نژا د بیرونس سعیدہ وارثی تھی۔ دارالامراء کے ایک سابق روحانی لارڈ مائیکل نذیر علی کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔ایک پاکستانی نژاد شاہد ملک لیبر حکومت میں وزیر رہ چکا ہے۔ایک اور پاکستا نی انور پرویز برطانیہ جا کر پہلے بس چلانے لگا،اُس کے بعد ایک چھوٹی دکان کھولی، وہ آج مشہورکاروباری کمپنی ”بیسٹ وے گروپ‘‘ کا مالک اور وہاں کے مالدار ترین لوگوں میں شامل ہے، اُسے سر کا خطاب بھی ملا ہے۔لاکھوں پاکستانی وہاں گئے اور وہیں کے ہو رہے، لیکن اپنے وطن کو نہیں بھولے،اس لئے وہاں سے آئے ہوئے مہمانوں کی آؤ بھگت اگر ایک طرف ہماری روایات کی پاسداری تھی تو دوسری طرف عوامی اُمنگوں کی ترجمانی۔یہ کسی برطانوی شاہی جوڑے کا پاکستان کا پہلا دورہ نہیں تھا۔
پاکستان بننے کے بعد ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم اپنے شریک حیات ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ کے ساتھ فروری 1961ء میں سولہ روزہ دورے پر یہاں آئی تھیں۔ وہ کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور اور سوات بھی گئی تھیں (ملک کا دارالخلافہ ابھی اسلام آباد منتقل نہیں ہوا تھا)۔ملکہ نے پشاور یونیورسٹی کا دورہ کیا تھا، پاک افغان سرحد گئیں، لنڈی کوتل اور تورخم کی سیر بھی کی۔ وہ 36 سال بعد پھر 1997ء میں چھ روزہ دورے پر پاکستان آئی تھیں اور اسلام آباد، کراچی، لاہور اور چترل گئی تھیں۔ لیڈی ڈیانا تین بارپاکستان آئیں،زیادہ تر اسلام آباد اورلاہور میں رہیں، لیکن اپنے پہلے دورے کے دوران 1991ء میں پشاور آئی تھیں اور افغان سرحد تک گئی تھیں۔ شہزادہ چارلس اور اس کی اہلیہ ڈچز آف کارنوال کمیلا نے 2006ء میں پاکستان کا دورہ کیا۔وہ اسلام آباد، لاہور اور چترال گئے۔ پشاور کا دورہ ان کے پروگرام میں شامل تھا، لیکن عین وقت پردو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گئے تھے“دورہ منسوخ کر دیاگیا۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر پشاور کا وہ دورہ جو تاج برطانیہ کا ولی عہد شہزادہ چارلس ادھورا چھوڑ گیا تھا، اُسے مستقبل کا ولی عہد شہزادہ ولیم پایہ تکمیل تک پہنچاتا۔ پشاور کی اپنی تاریخی اہمیت ہے اور یہاں دیکھنے کو بھی بہت کچھ ہے۔یہاں لوگ سوچتے ہیں کہ جب سوویت یونین کے دور میں کمیونسٹوں کے خلاف افغان مجاہدین برسر پیکار تھے اور لاکھوں کی تعداد میں لٹے پٹے مہاجرین یہاں پہنچے تھے، تب تو اہم سیاسی، عوامی، اور حکومتی قائدین و عمائدین چار دانگ عالم سے اُن کے ساتھ یک جہتی اور ہمدردی کا اظہار کرنے پشاورپہنچ جاتے تھے، لیکن افغانستان سے سرخ فوج کا انخلاء ہوتے ہی غیر ملکی مہمان پشاور کا راستہ بھول گئے۔شہزادہ ولیم شاہی خاندان کا ایک انتہائی اہم فرد ہے۔ اُس کا کوئی رسمی یا حکومتی رتبہ نہیں ہے، لیکن وہ مستقبل کا ولی عہد ضرور ہے۔ اس لحاظ سے اُس کا دورہ پشاور خاصی اہمیت کا حامل تھا۔
درحقیقت شاہی خاندان میں ولی عہد یا حکومتی سربراہ کا پشاور آنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ 23 اپریل 1930ء کے سانحہ قصہ خوانی پراظہار ندامت کرے۔ اس دن قصہ خوانی بازار میں مظاہرین پر فائرنگ کی گئی تھی جس میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا تھا۔ اُس دن کتنے لوگ جاں بحق ہوئے تھے،اس پر اختلاف ہے۔ حکومتی ذرائع نے شہداء کی تعداد 20 بتائی تھی، لیکن دیگر ذرائع کے مطابق یہ تعداد بہت زیادہ تھی۔ کہیں دو سو اور کہیں چار سو یا اس سے بھی زیادہ شہیدوں کا ذکر ہے۔نہتے عوام پر گولی چلانے کا حکم لندن سے نہیں آیا ہوگا اور یقینا مقامی عہدیداروں نے دیا ہوگا پھر بھی کسی نے تو غلطی کی تھی۔سو سال پہلے جلیانوالہ باغ میں بھی اسی طرح کا خون ریز واقعہ پیش آیا تھا،جس میں 375 افراد لقمہء اجل بن گئے تھے۔ سانحہ جلیانوالہ پر تو دو برطانوی وزرائے اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ٹریسامئے نے افسوس کا اظہار کیا اور اسے شرمناک واقعہ قرار دیا، لیکن قصہ خوانی کے سانحہ پر کسی نے اُف تک نہیں کی ہے۔ امید ہے کہ برطانوی حکومت اس واقعے پر ندامت اور افسوس کے اظہار کے ذریعے اپنی تاریخی غلطی تسلیم کرکے مملکت عظمیٰ برطانیہ کے انصاف پسند ہونے کا ثبوت دے۔