کاٹن پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے،میاں زاہد حسین 

کاٹن پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے،میاں زاہد حسین 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی(اکنامک رپورٹر)پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مےن اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ اگر حکومت نے کپاس کے شعبہ کو بھرپور توجہ نہ دی تو پاکستان کپاس پیدا کرنے والے بڑے ممالک کی صف سے باہر ہو جائے گا۔کاٹن پالیسی اور اسکی کاشت کے طریقہ کارمیں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ورنہ یہ فصل حالیہ تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ حکومت کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے صنعتی شعبہ ٹیکسٹائل کو بھی اس سلسلہ میں اقدامات کرنا ہونگے ورنہ پچھتانا پڑے گا۔ میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ2013-14 میں کپاس کی پیداوار تقریباً ڈیڑھ کروڑ گانٹھ تھی جو گزشتہ سال تقریباً1 کروڑ گانٹھ رہ گئی جبکہ امسال اس میں مزید کمی کا تخمینہ ہے جسکی وجہ کاشتکاروں کی بددلی، دیگر فصلیں اگانے کا رجحان، کم منافع، موسمیاتی تبدیلی، بے وقت بارشیں، کیڑوں، سنڈیوں، ٹڈیوںاور بیماریوں کے خلاف مدافعت سے عاری غیر معیاری بیج اور جعلی ادویات کی بہتات ہے۔میاںزاہد حسین نے کہا کہ اب پاکستان میں ایسے بیج متعارف کروانے کی ضرورت ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں ، بیماریوں اور کیڑوں کا مقابلہ کر سکیںورنہ تمام شراکت داروں کو بھاری نقصان ہو گا۔انھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں سینکڑوں جننگ فیکٹریاں پہلے ہی بند ہو چکی ہیں جبکہ کپاس کی کم پیداوار سے اسکی قیمت بھی بڑھ رہی ہے جو ملک کی سب سے بڑی برآمدی صنعت جو زراعت کے بعد زیادہ روزگار فراہم کر رہی ہے کے لئے خطرہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت اس سنگین صورتحال میں ڈیڑھ ارب ڈالر کی کپاس کی ڈیوٹی فری امپورٹ تک محدود اور حکومت کی جانب سے ضروری اقدامات کی منتظر نہ رہے بلکہ آگے بڑھ کر اس شعبہ کو سہارا دینے کے لئے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سمیت تمام ضروری قدم اٹھائے تاکہ کپاس کی فصل کی مقدار اور معیار بڑھائی جا سکے۔ چاول کی برآمد ٹیکسٹائل سے بدرجہاں کم ہے مگر رائس ایکسپورٹرز چاول کی پیداوار اور معیار بڑھانے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت اقدامات کر سکتے ہیں تو ٹیکسٹائل ملز مالکان بھی ایسا کر سکتے ہیں جو انکے اپنے مفاد میں ہے۔انھوں نے کہا کہ پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں کمی کا تخمینہ33فیصد سے بڑھ کر 34.5 فیصد ہو گیا ہے جبکہ سندھ کی پیداوار میں 18.15 فیصد کمی آئی ہے جو ملک کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔