جاٹوں کی جپھی اور کرتار پور
سکھ مذہب کے پیروکاروں کیلئے انتہائی مقدس مقام کرتار پور میں واقع دربار صاحب اور سرحد پار گورداسپور میں واقع ڈیرہ صاحب میں زمینی فاصلہ تو سات کلو میٹر کا ہے مگر بھارتی حکومتوں کی ڈھٹائی سے یہ فاصلہ 70سال پر محیط رہا۔اب وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مخلصانہ کوششوں سے سکھ برادری کا دربار صاحب آکر ماتھا ٹیکنا اور مذہبی رسومات ادا کرنا آسان ترین ہو رہا ہے۔ 9نومبر کو وزیر اعظم کرتار پور راہداری منصوبہ کا باقاعدہ افتتاح کر نے جا رہے ہیں،اس تقریب میں سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور سابق کرکٹر نوجوت سد ھو کے علاوہ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ سمیت ہزاروں افراد شرکت کریں گے۔یہ تقریب جنرل قمر جاوید باجوہ کی نوجوت سدھو کو جادو کی ”جپھی“ کا کمال بھی ہے۔جسے اب کرتار پور جپھی کہا جا سکتا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت دریا ے راوی اور بیاس کے درمیان کے علاقے گورداسپور، کلانور، دھاریوال، بٹالہ،سیالکوٹ،نارروال،شکر گڑھ نہایت سر سبزو شاداب تھے۔اراضی زرخیز پانی وافر جس کے باعث زمین اپنی کوکھ سے ہر قسم کا اناج نکالتی تھی،ہر طرف پھیلی ہریالی آنکھوں کو آج بھی تراوٹ بخشتی ہے۔اسی علاقہ میں سکھ برادری کے مقدس مقامات ڈیرہ صاحب اور دربار صاحب واقع ہیں،سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے دربار صاحب کا پر رونق علاقہ ویرانی کا منظر پیش کرنے لگا،سرحدی پابندیوں کے باعث بھارت سے سکھ یاتریوں کی آمد کا سلسلہ بند ہو گیا،اس کے باوجود دربار صاحب کرتار پور آباد رہا اور سکھ،مسلمان دونوں یہاں حاضری دیکر اپنے اپنے مذہبی نظریات کے مطابق رسوم ادا کرتے ہیں۔
راوی اور بیاس دونوں بھارتی علاقہ سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں،بیاس فیروزپور کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے اس دریا پر باکھڑا کے مقام پر بھارت نے ڈیم بنا کر لاہور کے جنوبی اضلاع کو بنجر بنانے کی سازش کی،دریاے راوی زگ زیگ بہتا کبھی پاکستان اور کبھی بھارت میں گھس جاتا ہے لاہور کے مقام پر یہ دریا جو کبھی شہر لاہور کی پہچان تھی، پاکستان میں مکمل داخل ہو جاتا ہے۔بھارت نے مادھو پور کے مقام پر اس دریا پر بھی ڈیم تعمیر کر کے جنوبی اور شمالی اضلاع میں زراعت کو تباہ کرنے کی کوشش کی،پاک بھارت بارڈر سے پاکستان کی طرف تین کلو میٹر فاصلے پر دربار صاحب واقع ہے جہاں سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گورونانک نے 20سال قیام کیا،سرحد کے بھارتی طرف چار کلومیٹر کے فاصلے پر ڈیرہ صاحب واقع ہے جہاں بابا گورونانک نے طویل عرصہ قیام کیا۔بھارتی سکھ اب تک ڈیرہ صاحب حاضری کے بعد دور بین کے ذریعے دربار صاحب کا نظارہ کرتے تھے،مگر اب اپنی آنکھوں سے دربار صاحب کی زیارت اور ماتھا ٹیکنا ان کیلئے ممکن ہو چکا ہے۔
چودھری پرویز الٰہی نے اپنے دور وزارت اعلیٰ 2002سے2007تک میں پکی سڑک تعمیر کر کے دنیا بھر سے آئے سکھ یاتریوں کو آرام اطمینان سے حاضری دینے،ماتھا ٹیکنے اور مذہبی رسومات کی ادائیگی میں سہولت دی،کرتار پور کو شکرگڑھ کے ذریعے ملک کے دوسرے حصوں سے ملا دیا،یہ ان کی علاقہ کے عوام اور سکھ یاتریوں کی بہت بڑی خدمت تھی۔
تحریک انصاف کی حکومت نے سکھ برادری کے دیرینہ مظالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے دربار صاحب میں حاضری کیلئے بھارت کے کروڑوں سکھوں کی دیرینہ خواہش پوری کر دی ہے،دربار صاحب کی تزین آرائش راستوں کی پختگی اور دیگر منصوبوں پر ترقیاتی کام مکمل ہے۔آجکل کرتار پور راہداری کا افتتاح دنیا بھر میں خبروں کا مرکز ہے اور پوری سکھ برادری عمران خاں اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی شکر گزار ہے۔ کرتار پور وہ مقام ہے جہاں بابا گورونانک نے اپنی زندگی کے آخری دن گزارے،اسی مقام پر ان کی ایک سمادھی اور ایک قبر ہے،جو سکھوں اور مسلمانوں دونوں کیلئے مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے،گورو دوارے کی عمارت کے باہر ایک کنواں بھی موجود ہے جسے گورونانک دیو سے منسوب کیا جاتا ہے،سکھوں کا عقیدہ ہے یہ کنواں بابا نانک کے زیر استعمال رہا اسی مناسبت سے اسے”سری کھو صاحب“ کہا جاتا ہے،گورو دوارہ کے خدمت گاروں میں سکھ اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔
کرتار پور راہداری کے حوالے سے 1998میں پہلی بار پاکستان اور بھارت میں رابطہ ہوا،مگر بات بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث سرے نہ چڑھ سکی،اس حوالے سے علاقہ کے بزرگ سیاستدان چودھری انور عزیز نے سب سے پہلے راہداری کا خواب دیکھا،وہ باقاعدگی سے دربار صاحب آکر حاضری دیتے اور دئیے جلاتے رہے،مگر چودھری پرویز الٰہی نے اس خواب کی تعبیر کیلئے عملی کام کر کے کرتار پور کی حیثیت عام لوگوں میں بھی نمایاں کی،جس کو باقاعدہ تعبیر اب وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ دے رہے ہیں،اس تاریخی کام کا کریڈٹ سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سدھو کو نہ دینا بھی زیادتی ہو گا،سدھو کی آرمی چیف کو جاٹوں والی جپھی ”جادو کی جپھی“ثابت ہوئی،اور دنیا بھر میں پھیلے 12کروڑ سکھوں کو ان کی دلی مراد مل رہی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سکھ فکری اعتبار سے ہندووں سے زیادہ مسلمانوں کے قریب تھے،بابا گورونانک نے بت خانہ ہند میں وحدانیت کا جھنڈا بلند کیا،لیکن بد قسمتی سے سماجی طور پر بابا جی کے پیروکار ہندووں کا حصہ تھے اسی بناء پر قیام پاکستان کے وقت قائداعظم کی تنبیہ کے باوجود سکھ قیادت نے ہندو انتہا پسندوں کا ساتھ دیا،مگر آزادی کے چند سال بعد ہی قائد اعظم کی بات درست ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں سانحہ گولڈن ٹمپل پیش آیا بھنڈرانوالہ کی شہادت نے سکھ قوم کی نئی نسل کی آنکھیں کھول دیں اور انہوں نے بھارت سے آزادی حاصل کر کے خالصتان کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔
بابا گورو نانک نے جب پنجاب کے جاٹوں کی اصلاح کی تحریک شروع کی تو جاٹوں کو سب سے بڑا بیٹا اس تحر یک کیلئے دان کرنے کا حکم صادر کیا،ہزاروں جاٹوں نے اپنے بیٹے دان کر دئیے،یوں یہ سماج سدھار تحریک سکھ مذہب کی بنیاد بنی،بابا جی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمان تھے،ان کی تعلیمات کا محور بھی ایک خدا ہے،انہیں اپنے مسلمان ساتھی بابا مردانہ کے ساتھ حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی،اس لئے جب بابا جی کا انتقال ہوا تو علاقہ کے مسلمان انہیں دفنانے کیلئے جمع ہو گئے،ہندوؤں نے جلانے پر اصرار کیا،معاملہ لڑائی جھگڑے تک جا پہنچا تو چند سیانوں نے صلاح دی اور بابا جی کی میت کو دیکھنے کا مشورہ دیا،چادر ہٹائی گئی تو میت کی جگہ تازہ گلاب مہک رہے تھے،ان گلابوں کو کو آدھا آدھا تقسیم کیا گیا،مسلمانوں نے اپنے حصے کے پھول دفن کر دئے، ہندوؤں نے جلا دیئے۔دربار کرتارپور میں بابا جی کا مزار اور سمادھی آمنے سامنے آج بھی موجود اور مرجع خلائق ہیں۔