مہنگا پٹرول اور گاندھی کا چیلہ 

  مہنگا پٹرول اور گاندھی کا چیلہ 
  مہنگا پٹرول اور گاندھی کا چیلہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


  پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا سُن کر آجکل میرا دھیان مہاتما گاندھی کی طرف ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کی پاک بھارت کشیدگی کے دوران شاید اِسے میری وطن دُشمنی خیال کیا جائے۔ ایک تو یہی کہ وہ ہمارے دو قومی نظریہ کو نہیں مانتے تھے۔ دوسرے اگر انہیں ایک بڑا سیاستدان مان بھی لیا جائے تو اِس دنگل میں قائد اعظم نے انہیں چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ خیر، گاندھی جی کے لئے میری پسندیدگی سیاسی نہیں، نجی نوعیت کی ہے جس کی چاشنی کو مہاتما کے سیاسی کرتب بڑھاوا دیتے ہیں۔ جیسے سو سال سے اوپر ہو ئے جب انہوں نے جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپس آتے ہی عوامی شخصیت کا عکس ڈالنے کے لئے ٹائی سوٹ اتارا اور یہ کہہ کر ایک ’ہمہ تن‘ دھوتی لپیٹ لی کہ ہمارے کسانوں کسان کی وضع قطع یہی ہوا کرتی ہے۔ اِسی حلیے میں شاہ برطانیہ سے مِل کر لندن کے بکنگھم پیلس سے نکلے تو کسی نے پوچھا کہ ملاقات میں کیا آپ کو اپنی بے لباسی پہ خفت نہ ہوئی۔ جواب مِلا: ”بادشاہ سلامت نے ہم دونوں کے حصے کا لباس پہن رکھا تھا۔“


 پس منظر کے طور پر مجھے بین کنگزلے کی فلم کا وہ سِین نہیں بھولتا جس میں بیرسٹر ایم۔کے۔ گاندھی کو جنوبی افریقہ میں ٹرین کی فرسٹ کلاس کا مسافر ہونے کی بنا پر پر ایک ریلوے اہلکار نے نسلی بنیاد پر دھکا دے کر ٹکٹ سمیت پلیٹ فارم پہ دے مارا تھا۔ مہاتما نے اِس کا بد لہ انوکھے انداز میں لینے کے لئے زندگی بھر ٹرین کے سب سے نچلے درجہ میں سفر کرنے کا عہد کر لیا۔ ایک بار کسی نے پوچھا:’’آپ ہمیشہ تھرڈ کلاس میں کیوں سفر کرتے ہیں؟‘‘ ”اِس لئے کہ کوئی فورتھ کلاس ہوتی۔“ پنڈت نہرو کی سرکاری جیب سے پاکستان کو مالی ترکہ دلانے کے لئے مرن بھرت، تقسیم کے بعد پاکستان کے دورے کی تمنا، مسٹر جناح کو متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بنانے کی تجویز اور اِس سے پہلے دوسری عالمی لڑائی میں حکومت سے تعاون کرنے کی تجویز پر یہ عجیب و غریب بیان کہ جاپانی فوجیں اگر ہندوستان پہ قبضہ کر لیں تو اچھا ہو۔ اِس پر انگریز وائسرائے نے چونک کر کہا تھا:’’خدا کا نام لیں، مسٹر گاندھی۔ ہم حالت ِ جنگ میں ہیں۔“ تو کیا مہاتما کے کمالات محض شعبدہ بازی تھے یا اُس سچ کا تسلسل جس کا اشارہ اُن کی سوانح میں ملتا ہے؟ یاپھر دونوں باتیں ٹھیک ہیں؟ 


 بدیشی کپڑے کے بائیکاٹ ہی کو لیں تو برطانوی ملوں کو بند کرانے کے لئے گاندھی نے کھڈی کے کھدر کی تحریک چلائی اور خود بھی بڑے پریم سے چرخہ کاتنے لگے۔ روزمرہ غذائی ضروریات میں خود کفالت کی خاطر انہوں نے ایک بکری پال لی تھی۔ معروف دانشور اوربھارتی ریاست اتر پردیش کی گورنر مسز سروجنی نائیڈو کہتی ہیں کہ تھرڈ کلاس کے سفر میں کمپارٹنمنٹ کو جراثیم سے پاک کرنے اور برف کی سِلوں سے ٹٹھنڈا کرنے پہ جو اخراجات اٹھتے گاندھی جی اُن سے لاعلم رہے۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی مشہور کر رکھا ہے کہ مہاتما گاندھی کی بکری، جسے وہ اپنے ساتھ انگلستان کا دورہ بھی کرا لائے، روزمرہ خوراک میں سیب اور کیلے کھایا کرتی تھی۔ یہ سوچ کر رشک آتا ہے کہ اس بکری میں سے دودھ کی بجائے مِلک شیک کی دھاریں نکلتی ہوں گی۔ نکلتی تھیں یا نہیں،مگر جِس طرح عہدِ جبر میں تصوف ترقی کرتا ہے، اُسی طرح پٹرول کے تازہ بحران میں مہاتما شاہد ملک کو صرف مہاتما ایم۔کے۔ گاندھی کی باطنی روشنی یا ’انر لائٹ‘ سے مدد مِل رہی ہے۔ 


 بین کنگزلی والی فلم میں سالٹ مارچ کے دوران گاندھی جی نے پا پیادہ ساحل پہ پہنچ کے سمندری پانی سے نمک نکال کر دکھا دیا تھا۔ جنوری 2015 ء میں پٹرول کی شدید قلت کے دوران، مہاتما شاہد نے بھی سوچا کہ راوی کا رخ کریں اور دریا سے پٹرول نکال کر دکھا دیں۔ مشکل یہ آن پڑی کہ گاندھی کے جا نشینوں کے ساتھ نصف صدی پہلے کی دریائی ڈیل کے نتیجے میں ہمارے حصے کا راوی اب بہتا ہی نہیں، بس شاہدرہ کے پاس مست فقیروں کے انداز میں لیٹا رہتا ہے۔ اس لئے پطرس بخاری کی طرح ہمارے لئے بھی یہ طے کرنا ممکن نہیں رہا کہ لاہور دریا کے دائیں کنارے بستا ہے یا بائیں کنارے۔ پر جی، مہاتما گاندھی نے برطانوی پارچہ ساز مِلوں کی کلیں روکنے کے لئے چرخے کی چرخی گھما ئی تھی اور کافی میکر یا جوسر خریدنے کی بجائے بکری کے ناز اٹھانے لگے تھے۔ سوچا کہ کیوں نہ خود میں پیدل پھرنے کی ہمت پیدا کی جائے۔ صحت کی صحت اور پٹرول کی محتاجی بھی ختم۔


 چھٹی کے دن پہلے ہی سفر میں گاندھی جی دل و دماغ پہ حاوی رہے۔ ایک تو شادمان سے نیو کیمپس کے نواح تک کی یہ مسافت تھی ہی خوشگوار کہ خالہ زاد بہن نے چھٹی کے دن دوپہر کی روٹی ٹھاک رکھی تھی۔ دوسرے گاندھی کے نمک جلوس کی طرح کچھ بھانجیاں بھتیجے میرے آگے پیچھے بھی چلنے لگے۔ البتہ عوام میں گھل مل جانے سے قدم قدم پر یہ احساس ہوا کہ لاہور میں سڑکوں کی توسیع و تعمیر کرتے ہوئے جتنا خیال اہل موٹر کا رکھا گیا ہے، ویسی ہی یوزر فرینڈلی اپروچ پیدل قسم کے حضرات و خواتین کے لئے بھی اپنا لی جائے۔ نہر کے ساتھ ساتھ سروس لین پہ چلتے چلتے فیروز پور روڈ تک تو آسانی سے پیش قدمی کی، پھر ایک دوست کا قول یاد آنے لگا کہ مَیں آدمی کھچرا نہ ہو تو ہمارے شہر میں سڑک پار نہیں کر سکتا۔ بہرحال، زمین دوز میٹرو اسٹیشن سے ہو کر اہلِ ایماں صورت خورشید ڈوبے اور سڑک کی دوسری سمت نکل آئے۔
 قارئین، ماضی کا پنجاب ایک صوبہ تھا اور لاہور اس کا دارالحکومت۔ اب شہر کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے عنقریب ڈی ایچ اے ایک بڑا شہر ہوگی اور لاہور اس کا ایک محلہ جہاں میٹرو بس، اورنج ٹرین اور اُوبر کے دَور میں بعض علاقوں میں پیدل نہ چلنا ابھی سے ایک طبقاتی ضرورت ہے۔ وگرنہ بار بار یہ سوال کہ ”سر خیر ہووے، اج پیدل جارہے او؟‘‘ پھر بھی ہمارے سفر میں گھر سے نیو کیمپس کا مین گیٹ چار کلو میٹر سے بھی کم نکلا جہاں سے منزل محض سو قدم آگے تھی۔ یہ گوگل میپ کی شہادت ہے۔ معتدل رفتار پر پنتالیس منٹ میں گرد وپیش کا مشاہدہ کیا جس دوران ایف سی کالج کے باہر جلی حروف میں بائیبل کی یہ آیت بھی پڑھنے کو مِل گئی کہ ”ایک دوسرے کی خدمت پیار سے کرو۔“ اِس پر گاندھی جی کے چیلے نے سوچا کہ شہر کی تیز رفتار سڑکوں کے ساتھ ساتھ پاپیادہ شہریوں کے لئے فُٹ پاتھوں کی ممکنہ تعمیر شایدپیار سے کی جانے والی ایک بڑی خدمت ہو گی۔ یہ چھ سال سے پہلے کی بات تھی۔ آج ایف سی کالج کے باہر آویزاں یہ دل افروز بورڈ منظر سے غائب ہوچکا ہے۔ 


 

مزید :

رائے -کالم -