ملک "تھیوری" نہیں پریکٹیکل سے چلے گا...!
وزیر اعظم جناب عمران خان کا قوم سے "حالیہ خطاب" ان دنوں گلی کوچے میں "موضوع بحث" ہے.بلا شبہ خان صاحب "تھیوری "بہت اچھی پیش کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں بنیادی مسئلہ "پریکٹیکل "کا ہے۔ویسے بھی وزیر اعظم کوئی "لیکچرر" یا "موٹیویشنل سپیکر "نہیں ہوتا کہ مسحور کن تقریر کی،داد سمیٹی اور چل دیے ۔وہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اور اسے مسائل "بیان" نہیں "حل" کرنے ہوتے ہیںبدقسمتی سے تحریک انصاف حکومت کے تین سال میں مہنگائی بنیادی مسئلہ بن کر چمٹ گئی.یا یوں کہہ لیجیے کہ عمران دور میں صرف ایک چیز "اوپر "گئی اور وہ ہے مہنگائی . پٹرول،آٹا ،گھی اور چینی تو "بڑی چیزیں" ہیں یہاں تو "بے چارہ" برائلر انڈہ "قیامت کی چال" چل گیا ہے۔ارباب اقتدار نہ ہی عوام کو سمجھ آرہی ہے کیا کریںلگتا ہے ووٹ لینے اور دینے والے دونوں ہی بری طرح پھنس گئے ہیں.
"فریقین" کی "حالت زار "دیکھ کر مجھے ایک اخبار کے "دلچسپ جنرل مینجر" امان اللہ صاحب کے ساتھ گزرے دن یاد آگئے..کئی سال پہلے گوجرانوالہ کے ایک درمیانے درجے کے بزنس مین نے لاہور سے شائع ہونے والا صبح اور شام کا اخبار ٹھیکے پر لے لیا..وہ "پہلوانوں کے شہر" سے ہی اپنی "مینجمنٹ ٹیم " ساتھ لائےاسی ٹیم کے ایک رکن امان اللہ صاحب بھی تھے.نیم خواندہ اور میانہ قد.پہلے کلین شیوڈ تھے پھر داڑھی رکھ لی۔پنجابی میں اردو بولتے تھے۔بھولے بھالے مگر کاروباری آدمی تھے.ہم شام کے اخبار کے نیوز ایڈیٹر تھے۔امان اللہ صاحب" چہک چہک" کر بتاتے کہ میں گھی والے جنرل سٹور پر ہوتا تھا کہ" بھائی جان" نے لاہور پہنچنے کا حکم دیا.وہ اپنے سامنے ٹیبل پر رکھے بڑے مگر پرانے پی ٹی سی ایل فون کی طرف اشارہ کرکے بتاتے یہ بھی گھی والی دکان سے لایا ہوں.امان اللہ صاحب کچھ دن رپورٹنگ،نیوز روم،کمپوزنگ ،پیسٹنگ اور پریس سیکشن میں "جھانکنے" کے بعد سمجھے کہ اخبار کون سا مشکل کام ہے.انہوں نے "ادارتی امور" میں چھیڑ چھاڑ شروع کر دی..کہنے لگے لیڈ مجھے دکھا کر لگایا کروہم ٹریسنگ پر آٹھ کالم "چیختی چنگھاڑتی" شہ سرخی کا پرنٹ نکال کر ان کے سامنے رکھ دیتےوہ اچانک "سنجیدہ" ہو جاتے ..ہم بھی جان بوجھ کر "ہمہ تن گوش" ہو جاتے..موصوف لیڈ کا پرنٹ پکڑتےکبھی اوپر ،کبھی نیچے.کبھی دائیں گھماتے کبھی بائیں.جیسے کوئی ڈاکٹر ایکسرے چیک کرتا ہے پھر" افسرانہ انداز" میں "نقص" نکالتے ہوئے" گویا "ہوتے کہ لیڈ کافی" سخت "لگ رہی ہے۔ہم کہتے "کدھر" سے تو وہ گھبرا جاتے..پہلو کے ساتھ بات بھی بدلتے اور کہتے کہ چلیں یہ بھی چل جائے گی..یہ "کھیل تماشا" کب تک چلتا..؟؟؟تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کوئی ایک سال بعد ہی اخبار کے" اصل مالک" نے زچ ہو کر کنٹریکٹ ختم کر دیا..
ہمارے اس وقت کے جوائنٹ ایڈیٹر بزرگ اخبار نویس جناب اقبال جھکڑ کو یاد ہوگا کہ ہم نے نا چاہتے ہوئے امان اللہ صاحب کو کیسے بھگتا اور موصوف نے اپنے اوپر جبر کر کے ہمیں کیسے اتنی دیر برداشت کیا۔!!!!
بات ہورہی تھی" تھیوری" اور "پریکٹیکل" کی..یقین مانیں عمران حکومت کے "ریاست مدینہ" کے نعرے میں بڑی "کشش" تھی مگر افسوس صد افسوس اس" حوالے" سے بات بھی "سیرت کے حوالوں" سے آگے نہ بڑھی..کاش کوئی مذہبی وزیر اور مشیر ہی جان کی امان پاتے ہوئے اپنے کپتان کو بتاتا کہ "معاشی استحکام" ریاست مدینہ کا پہلا باب ہے.منفرد سیرت نگار نعیم صدیقی نے ہجرت مدینہ کو تاریخ کا بڑا معاشرتی اور معاشی بحران قرار دیا ہے ..رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بحران کو مواخات مدینہ کی معجزانہ پالیسی سے چشم زدن میں حل کر کے ایک عظیم رہنما ہونے کا ثبوت دیا۔ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنے ادارے اخوت کی بنیاد اسی مواخات مدینہ پر رکھی۔وہ برس ہا برس سے "فقیرانہ صدا" لگا رہے ہیں کہ غربت خیرات سے نہیں مواخات سے ختم ہو گی کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے "خان اعظم" وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج کے بجائے صرف ڈاکٹر امجد ثاقب سے ہی غربت کے خاتمے کا فارمولہ سمجھ لیتے تو وہ کب کے سرخرو ٹھہر جاتے ..!!!
صدیقی صاحب نے مواخات کے باب میں لکھا:مدینہ کے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ سینکڑوں مہاجرین کی بحالی تھا..گھر بار چھوڑ چھاڑ کر مسلسل لوگ اکھڑے چلے آرہے تھے اور چند ہزار کی آبادی رکھنے والی متوسط سی بستی کو انہیں اپنے اندر جذب کرنا تھا..واقعہ یہ ہے اس مسئلے کو،جو تاریخ میں جب بھی پیدا ہوتا ہے پریشان کن بن جایا کرتا ہے،مدینہ کے معاشرے اور صدر ریاست نے جس کمال حکمت عملی سے حل کیا اس کی کوئی دوسری مثال دنیا میں نہیں ملتی ، کوئی آرڈی نینس جاری نہیں کیے گئے.کوئی قانون نہیں ٹھونسے گئے، الاٹ منٹیں نہیں کی گئیں.مہاجرین کی تعداد معین کرکے کوئی قدغن نہیں لگائی گئی.کسی جبر سے کام نہیں لیا گیا.محض ایک اخلاقی اپیل سے اس پرپیچ مسئلے کو چند روز میں حل کرلیا گیا.سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدے ،نظریے اورمقصد کی صحیح معنوں میں ایک نئی برادری پیدا کر دکھائی اور ایک ایک انصاری کے ساتھ ایک ایک مہاجر کا رشتہ قائم کر دیا.انصار کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے مال، مساکن، باغات اور کھیت آدھوں آدھ بانٹ کر رفقائے مقصد کو دے رہے تھے بلکہ بعض تو دو دو بیویوں میں سے ایک ایک کو طلاق دیکر اپنے دینی بھائیوں کے نکاح میں دینے کوتیارہوگئے..دوسری طرف مہاجرین کی خود داری کا نقشہ یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ہمیں کھیت یا بازار کا راستہ دکھا دو،ہم تجارت یا مزدوری کرکے پیٹ پال لیں گے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب بھی اخوت کی یہی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اخوت کا سارا فلسفہ،اصول اور طریقہ کار،یہ سب ایک تدریجی عمل تھا.اس تصور کا اصل سرچشمہ مواخات مدینہ کی وہ عظیم روایت ہے جس کا آغاز چودہ سو برس پہلے اس وقت ہوا جب مسلمانوں کو مکہ سے وطن بدر ہونا پڑاہجرت کا سفر اور صعوبتیں.جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو تہی دامن تھےمدینہ کے رہائشی انہیں اپنے گھر لے گئے اور کہنے لگے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے۔آج سے آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہےمواخات کا یہ رشتہ ایک عظیم الشان روایت کا آغاز تھا لیکن ہم نے اسے ایک واقعہ سمجھ کر تاریخ کی کتابوں تک محدود کر دیاہم آج اخوت کے ذریعے مواخات کا وہی اصول دہرانا چاہتے ہیں۔ہماری دسترس میں اگر دو چپاتیاں ہیں تو ایک یا آدھی چپاتی اس شخص کو دے دیں جو ایک سے بھی محروم ہے.یہی احساس اخوت کے قیام کی بنیاد بنا.مذہب سے مستعار لیا گیا یہ اصول ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو مذہب سے دور ہیں۔
مواخات اور کیا ہے؟بس بانٹ کر کھائیے..جب مواخات کی برکت سمجھ میں آجائے تو انسان تو کیا مدینہ کی بلیاں بھی بھوکی نہیں سوتیں۔قدرت اللہ شہاب بتاتے ہیں کہ میں نے مسجد نبوی ﷺ شریف کے دروازے پر جوتوں کے پاکستانی رکھوالے سے پوچھا کہ آپ کے کھانے کا انتظام کیسے ہوتا ہے؟بولا ایک ولی یہاں بلیوں کے لیے کھانا اکٹھا کرنے پر مامور ہیں..سارا دن سر پر ٹوکری اٹھائے پھرتے ہیں.جگہ جگہ سے کھانے کے ٹکڑے اکٹھے کرتے رہتے ہیں اور پھر جب وہ کھانے کے وقت ٹوکری لے کر آتے ہیں تو مدینہ کی ساری بلیاں میائوں میائوں کرتی اکٹھی ہو جاتی ہیں ، جس شہر میں بلیوں کا اتنا اچھا انتظام ہے وہاں انسان کیسے بھوکا رہ سکتا ہے؟..مواخات مدینہ کی خوشبو سے مہکتا یہی وہ احساس ہے جس کی روشنی میں ریاست مدینہ تشکیل پاتی ہے.امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی پیاسا مر گیا تو میں جوابدہ ہوں گا۔یہی ریاست مدینہ کا حسن ہے.خان صاحب!وقت کم ہے."تھیوری "کافی ہوگئی، آپ بھی اب پریکٹیکل کی طرف بڑھیے..جان لیں کہ ملک "تھیوری" نہیں پریکٹیکل سے چلے گا!!!!
نوٹ: یہ لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں