ملک ہے تو سب ہے
جمعہ 4 نومبر کو سابق وزیراعظم اور قائد مسلم لیگ( ن) میاں محمد نواز شریف کے ساتھ لندن میں تفصیلی نشست ہوئی۔ انہوں نے نفرت اورتقسیم کی سیاست کو مسترد کیا ہے۔ ان کی نظر اب بھی عوام کو اقتصادی ریلیف کی فراہمی پر ہے۔ وہ پاکستان واپسی کے لئے مشاورت کررہے ہیں ۔ اس کے لئے ٹائمنگ اور وقت بہت اہم ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ نواز شریف نے جب ایک فیصلہ کرلیا ہو تو اس کے اوپر بہت زیادہ مشاورت کرتے ہیں تاکہ اس فیصلے کی نوک پلک درست کرسکیں۔ ہم انہیں پاکستان میں جلد دیکھ سکتے ہیں۔ پارٹی کی گراس روٹ لیول تک تنظیم نو ، حکومتی عہدوں کی پارٹی کے عہدوں سے علیحٰدگی اور پراپیگینڈا مشینری کا جدید تقاضوں اور ٹیکنالوجی سے آراستہ نظام ملک اور مسلم لیگ (ن) کیلئے ازحد ضروری ہے۔
عمران خان کی ریلی میں فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات میں وفاق پنجاب حکومت سےتمام ممکنہ تعاون کرے گا، عمران خان کے طرز سیاست سے ہزار اختلاف کے باوجود ان پر حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔جب سیاست نظریات ایشوز اور عوام کی آراء سے آراستہ ہوکر منشور کے ذریعے کی جاسکتی ہے تو تشدد کو کسی بھی تناظر اور توجیح کے تحت جگہ نہیں دی جاسکتی۔عمران خان کی اتحادی پنجاب حکومت لانگ مارچ کی حفاظت کویقینی بنائے اور اسے مزید خونی ہونے سے بچائے۔
ایک طرف عمران خان اپنی جماعت کیساتھ سڑکوں پر ہے اور دوسری طرف شہباز شریف وزیراعظم پاکستان کے طور پر بین الاقوامی تعلقات کے نئے دور کا آغاز کررہے ہیں اور کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کارکردگی سے سوچنے والوں کو سوچنے پر مجبور ضرور کیا ہوگا کہ انہوں نے غلط چوائس کی۔ وزیر خزانہ چیلنجز کے باوجود عوام کو ریلیف فراہمی کیلئے کوشاں ہیں۔ عمران خان اپنی تقریروں میں ماؤ سے میسولینی سب کو حسب توفیق آزماتے ہیں۔ مارشل لاء کا ذکر خیر بھی ہوا ہے۔ خان صاحب کو نہیں معلوم کہ مارشل لاء میں کیا ہوتا ہے، اگر مارشل لا ءہوتا تو اس طرح سر چڑھ کر جرنیلوں کا نام لیکر ایف آئی آر کی درخواستیں نہ دے رہے ہوتے۔ یہ سب جمہوریت کے ہی ثمرات ہیں۔ جنرل باجوہ عزت سے ریٹائر ہونا چاہ رہے ہیں انہیں یہ موقع ملنا چاہیے۔ کسی بھی صورت مہم جوئی عالمی طاقتوں کو تو سہولت فراہم کرسکتی ہے ملکی اور تقسیم شدہ معاشرے کو کوئی تقویت فراہم نہیں کرے گی۔ اسٹیبلشمنٹ کے اپنے گھوڑے نے اسے خود دولتی ماری ہے،جس طرح کے حالات ہیں ایسی مہم جوئی پر کوئی اور گروپ اور مسلح جتھہ بھی جھپٹ سکتا ہے پس مشتری ہوشیار باش۔
ایسے وقت میں جب بڑے عہدے کیلئے لابنگ کیلئے پر تولے جارہے ہیں امید ہے کہ ایک اچھا محب وطن جنرل اگلا آرمی چیف ہوگا۔ انشااللہ وزیراعظم بڑی خوبصورتی سے چیف آف آرمی سٹاف اور جی ایچ کیو کی طرف سے بھیجے جانے والے ناموں میں سے ایک نام چنیں گے۔آئین کے تحت وزیراعظم بااختیار ہیں ان ناموں میں سے کسی کا بھی قرعہ نکال سکتے ہیں،ٹاس بھی کرسکتے ہیں اور انٹرویو بھی ۔ انہیں فون اورفرینڈ کی سہولت بھی دستیاب ہے،عوام کو زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہ ہے ۔ فکر کی بات اسکے بعد کے معاملات ہوں گے جسکے لئے ڈھیروں دعائیں ہیں۔
سوشل میڈیا سے متعلق ایف آئی اے کے قانون میں تبدیلی پر صحافی برادری ودیگر سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر مشاورت کرنی چاہیے، اگر بل کے ذریعے آزادی اظہارِ رائے پر قدغن لگے گی تو حکومت اور اپوزیشن دونوں کا نقصان ہوگا۔ سوشل میڈیا میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو کنٹرول کرنا چاہیے اور لوگوں کی نجی زندگی کو جو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اسکا بھی قانونی سدباب ضروری ہے لیکن پرویز مشرف کے دور میں ریگولیشن کے بغیر میڈیا کی آزادی جیسا حال نہ ہو کہ بعد میں روتے پیٹتے پھریں۔ برطانیہ میں انٹرنیٹ واچ ہر سال 10 ہزار سائٹس بلاک کرتا ہے۔ تطہیر اور انضباطی کارروائی اگر مشاورت سے مؤثر بروقت اور منصفانہ ہوگی تو قابل قبول ہوگی اس کے لئے زیر بحث قانون پر مشاورت پارلیمان اور میڈیا کے فورم سے ہونی چاہیے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں