جنگوں کا خاتمہ، خزانے میں بچت، معیشت کی بحالی،ٹرمپ کا انتخابی منشور
واشنگٹن (اظہر زمان، تجزیاتی رپورٹ) ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں دوسری دفعہ برا جمان ہونے کیلئے تیار ہیں، گذشتہ 2020ء کے انتخابات میں جب وہ ڈیموکرئیک امیدوار جو بائیڈن سے ہارے تھے تو انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اوران کے حامیوں نے کیپٹل پل پر اسو قت حملہ کردیا تھا، جب ایوان نمائندگان میں جوبائیڈن کے انتخاب کی توثیق کے بعد ان کی حلف برداری ہونی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے عدالتوں میں متعدد جرائم کی پاداش میں انہیں مجرم قرار دیا گیا اور انتخابی مہم کے دوران وہ دو مرتبہ قاتلانہ حملے سے بال بال بچے۔ اس پس منظر کے باوجود امریکی عوام نے ڈیمو کرئیک صدارتی امیدوار نائب صدر کملا ہیرس کے مقابلے میں ان پر اعتماد کیا۔جیسا کہ تجزیہ کار مسلسل اس رائے کا اظہار کررہے تھے کہ آخری فیصلہ سات سوئنگ swingریاستیں کریں گی جنہیں میں ”رنگ بدلتی“ ریاستیں کہتا ہوں اور پھر ان ریاستوں کا فیصلہ ڈونلڈ ٹر مپ کے حق میں آنے سے ان کی کامیابی یقینی ہوئی۔ پنسلو ینیا کی ریاست کو جیت کرجب ڈونلڈ ٹرمپ کو مزید 19الیکٹورل ووٹ ملنے سے اس کا سکور 267ہوا تو وہ حتمی جیت کے ٹارگٹ سے صرف 3ووٹ پیچھے تھے۔ اس کے بعد ایک اور ”رنگ بدلتی“ ریاست وسکو نسن کے دس الیکٹورل ووٹ ڈونلڈٹرمپ کو ملے تو انکا سکور 277تک پہنچ گیا اور اس وقت کملا ہیرس 224ارکان پر کھڑی تھیں اس طرح وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کا سفر ٹرمپ کیلئے اختتام پذیر ہوگیا،تاہم آخری نتائج کے مطابق ٹرمپ کے الیکٹورل ار کا ن کی تعداد قبل ازیں ان سات میں دو ریاستوں نارتھ کیرولینا اور جارجیا کے سولہ سولہ الیکٹورل ووٹ ٹرمپ کو مل گئے تھے۔ اس طرح انہوں نے سات ریاستوں کے کل 93 ووٹوں میں سے چار ریاستوں سے مجموعی طور پر 61ووٹ حاصل کرکے صدارت کا مقابلہ حتمی طور پر جیت لیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی میں ان کی فارن پالیسی کے ایجنڈے کا بہت ہاتھ ہے۔ توقع کی جارہی ہے وہ جنوری میں حلف اٹھا کر وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں اپنا بزنس شروع کرینگے تو وہ یوکرین اور چین کے بارے میں سخت پالیسی پر عملدرآمد کریں گے۔ مشرق وسطیٰ میں بھی وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں گے۔ یوکرین اور اسرائیل کی فوجی امداد کم کریں گے اوراسرائیل کے ہاتھوں معصوم فلسطینیوں پر مظا لم اور وہاں خون ریڑی کو پہلی فرصت میں بند کرنے میں اپنا اثر رسوخ استعمال کریں گے اور اعتدال پسند فلسطینی صدر محمود سلطان اور اسرائیل کو ایک میز پر بٹھا کر دو ریاستی حل تلاش کرنے میں مدد دیں گے۔ ان کے دور میں توقع کی جارہی ہے کہ وہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں اور غیر ممالک کی فوجی اور مالی امداد کو کم سے کم سطح پر لائیں گے۔ امریکی خزانے کی زیادہ سے زیادہ بچت کریں گے اور زیادہ سرمایہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں اضافہ کریں گے۔ انہوں نے معیشت کی بحالی کیلئے جو ٹھوس پروگرام اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا تھا وہ اس پر یقینی عمل کریں گے۔ان سے یہ بھی توقع ہے وہ امیگریشن کی پالیسی کو زیادہ حقیقت پسندا نہ بناتے ہوئے جہاں قانونی طور پر آنیوالے تار کین وطن کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے وہاں وہ جنوبی سرحدوں سے غیر ملکی تارکین وطن کے سیلاب کو روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات کریں گے۔
ٹرمپ منشور