ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب
امریکی صدارتی انتخابات میں جیت ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی ہوئی، وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے ہیں۔وہ 20 جنوری، 2025ء کو یونائیٹڈ سٹیٹس کیپیٹل کمپلیکس کے میدان میں حلف اُٹھا کر امریکہ کے 47ویں صدر بن جائیں گے۔ اُنہوں نے 538 میں سے277 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے جبکہ اُن کی مخالف ڈیمو کریٹک امیدوار کملا ہیرس 226 ووٹ حاصل کر سکیں، واضح رہے کہ ان انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو جیتنے کے لیے کل 538 میں سے کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے مابین کانٹے دار مقابلہ ہوا تاہم سات ”سوئنگ سٹیٹس“ کہلائے جانے والی ریاستوں کے 93 الیکٹورل ووٹس نے ٹرمپ کی جیت میں فیصلہ کْن کردار ادا کیا، ان میں ایریزونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، نارتھ کیرولائنا، پینسلوینیا اور وسکونسن شامل ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق 50 ریاستوں میں سے 27 میں ڈونلڈ ٹرمپ اور 19 میں کملا ہیرس کامیاب ہوئی ہیں جبکہ دیگر ریاستوں میں انتخابی نتائج برابر رہے۔جیت کے بعد ٹرمپ کے حامی جشن منا رہے ہیں، بعض لوگوں نے وائٹ ہاؤس کے سامنے نعرے لگائے جس کے بعد امریکی میڈیا کے مطابق صدارتی انتخابات اور تناؤ کے پیش ِ نظر وائٹ ہاؤس کے ارد گرد 8 فٹ اونچی لوہے کی باڑ لگا دی گئی ہے،واشنگٹن ڈی سی میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے، گلیوں میں پولیس اہلکار اور پولیس موبائلز موجود ہیں۔یہی نہیں بلکہ کیپیٹل کی عمارت کے گرد بھی باڑ اور رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ اب امریکی سینیٹ میں ریپبلکن کی 51 اور ڈیمو کریٹس کی 43نشستیں ہو گئی ہیں،اِس سے قبل سینیٹ میں 38 نشستیں ریپبلکن جبکہ 28 ڈیموکریٹس کے پاس تھیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق 11 ریاستوں میں گورنروں کا انتخاب بھی ہو گا، کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی 50 میں سے 43 ریاستوں میں دونوں پارٹیوں کی پوزیشن پہلے ہی واضح تھی۔
جیت کے چند گھنٹوں بعد فلوریڈا کے شہر پام بیچ میں نو منتخب صدر نے اپنے حامیوں سے خطاب کیا جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ اُنہوں نے تاریخ رقم کر دی ہے، سنہری دور کا آغاز ہونے والا ہے، وہ تمام ملکی معاملات کو ٹھیک کر دیں گے،امریکہ اب نئی بلندیوں کو چھوئے گا اور دوبارہ عظیم بنے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے سینیٹ میں بھی کامیابی حاصل کر لی ہے جو کہ غیر معمولی ہے۔ اپنے خطاب میں نو منتخب امریکی صدر نے ”سپیس ایکس“ کے مالک ایلون مسک کو خصوصی خراجِ تحسین پیش کیا، ایلون مسک نے اُن کی صدارتی مہم کے لیے نمایاں مالی مدد کی اور دو ہفتے تک فلاڈیلفیا اور پینسلوینیا سمیت سوئنگ ریاستوں میں اُن کی انتخابی بھی مہم چلائی۔یاد رہے کہ ایلون مسک دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہیں، اُنہوں نے ٹرمپ کی صدارتی مہم کے لیے تقریباً 132 ملین ڈالرز عطیہ کیے تھے،ٹرمپ صدارتی مہم کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا اور ”ایکس“ پر اپنی پوسٹ میں اُن کی جیت کو ”کرسٹل کلیئر“ قرار دیا۔ عالمی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کی کامیابی کے بعد عالمی منڈی میں سونے اور خام تیل کی قیمت کم ہو گئی جبکہ سٹاک مارکیٹوں میں تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا۔
اِس میں تو کئی شک نہیں کہ امریکی عوام نے اُن کا بھرپور ساتھ دیا۔ اب اُمید کرتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے کریں گے، اُنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ ٹیکسوں میں کمی کریں گے، قرض ادا کریں گے، سرحدوں کو سیل کریں گے تاکہ جو بھی آئے وہ قانونی طور پر آئے۔اُنہوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ کوئی نئی جنگ شروع نہیں کریں بلکہ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی ایک دن میں یوکرین اور چند گھنٹوں میں فلسطین میں جنگ بندی کرانے کا اعلان کیا تھا،اب دیکھتے ہیں وہ اِس سلسلے میں کیا کرتے ہیں۔ حماس رہنماء سمی ابو ذوہری نے بھی نو منتخب صدر کو ٹرمپ کو اُن کے بیانات کے تناظر میں جانچنے کی بات کی ہے۔ یوکرین جنگ ایک روز میں بند کرانے کی بات کا روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے خیرمقدم کیا تھا، تاہم بین الاقوامی ماہرین کے امور کا کہنا ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا ٹرمپ سمجھتے ہیں یا کہتے ہیں، یہ درست ہے کہ وہ یوکرین کے لیے امریکی امداد پر سوال اُٹھاتے ہیں تاہم اُن کے کسی جارحانہ اقدام سے نہ صرف نیٹو کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ یورپ سے امریکہ کی تعلقات میں بڑی تبدیلی بھی آ سکتی ہے۔ اِسی طرح اسرائیل۔فلسطین جنگ میں امریکہ کا پیچھے ہٹنا خصوصاً مالی لحاظ سے اسرائیل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے گزشتہ دورِ حکومت کو دیکھا جائے تو انتخابی مہم کے دوران کیے گئے بہت سے وعدے اُنہوں نے پورے نہیں کیے تھے تاہم افغانستان سے فوجیوں کی واپسی اور شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات میں جارحانہ انداز اپنایا تھا، اُن کے روس کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے شاہی خاندانوں خصوصاًسعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اچھے مراسم ہیں۔انتخابی مہم کے دوران اُن کا زیادہ انحصار معیشت پر ہوتا ہے کیونکہ ایک عام امریکی موجودہ معاشی حالات سے خوش ہے اور نہ ہی اُسے مستقبل کی کوئی اچھی تصویر نظر آ رہی ہے۔ کھربوں ڈالر کے خرچ کے باعث امریکہ میں معیشت کے حوالے سے بداعتمادی کی فضاء موجود ہے، مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھر مار نے وہاں بھی عوام کو بھی زچ کر دیا ہے۔بعض ماہرین کے نزدیک کملا ہیرس کے ہارنے کی ایک بڑی وجہ اُن کا امریکی نائب صدر ہونا بھی تھا، اس کے ساتھ ساتھ بائیڈن انتظامیہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے اُن کے کندھوں پر یوکرین۔روس اور اسرائیل۔فلسطین جنگ کا بوجھ بھی تھا۔امریکہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے صدر بائیڈن پر بہت تنقید کی گئی، مظاہرے ہوئے، یونیورسٹیوں میں طلباء نے کافی روز تک مہم چلائی، اسرائیل کی حمایت کی وجہ سے مسلمان ووٹروں نے ڈیمو کریٹس کا ساتھ نہ دینے کا عندیہ دیا تھا۔برطانوی انتخابات کے نتائج پر بھی گزشتہ حکومت کی اسرائیلی حمایت کے اثرات صاف نظر آئے تھے۔بہر حال اب ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر صدر منتخب ہو چکے ہیں، کس کے حق میں وہ بہتر ثابت ہوتے ہیں، کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں، یہ تو آنے والے وقت میں ہی واضح ہو گا۔ البتہ ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد یوکرین، ایران اور اسرائیل سمیت اُن ممالک کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں جو کسی بھی وجہ سے امریکی امداد پر انحصار کر رہی ہیں کیونکہ ٹرمپ امریکی ٹیکس پیئرز کا پیسہ کسی کو دینے کے حق میں نہیں ہیں، اِسی لیے وہ جنگوں کے خلاف ہیں۔صدر ٹرمپ کا سفر یقیناآسان نہیں رہا، عدالتی کٹہرے میں کھڑے ہوئے، بیس منٹ کے لیے جیل بھی گئے، انہوں نے خود اپنی انتخابی مہم کے دوران تسلیم کیا کہ اُن سے گزشتہ دورِ حکومت میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں جنہیں وہ اب نہیں دہرائیں گے، کم از کم انہوں نے یہ تو مانا کہ غلطیاں ہوئی تھیں ہو سکتا ہے اب وہ انہیں سدھار لیں۔