قانون کی حکمرانی

بدبخت سموگ نے شہر لاہور میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔گھر کا ہر دوسرا فرد نزلہ، زکام، چھاتی خراب، بخار سے لڑ رہا ہے۔نگوڑی سموگ سے نمٹنے کے لئے لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس شاہد کریم احکامات جاری کر چکے ہیں۔سنئیر وزیر مریم اورنگزیب اور متعلقہ ادارے بھرپور کام کر رہے ہے۔
میری رائے میں سموگ کے آسیب سے جان چھڑانے کے لئے جس طرح میاں محمد نواز شریف نے بہاولپور میں انسانی خون چوسنے والے سائیکل رکشوں پر پابندی لگانے جیسا بڑا کام کیا بالکل اسی طرح شہر لاہور میں سی ایم محترمہ مریم نواز چنگ چی رکشوں اور مکڑا نما لوڈروں پر پابندی کے ناممکن کام کا بیڑا اٹھا کر ہمیشہ کے لئے امر ہو سکتی ہیں۔
اسی کے ساتھ انکو شہر لاہور کی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لئے دبئی طرز کے کسی اعلی قانون کے رکھوالے دبنگ پولیس آفیسر کو جو سفارش کے نام سے واقف نہ ہو۔یہ ٹاسک سونپنا چاہیئے تاکہ عوام کو سکھی کیا جا سکے کیونکہ خاکسار قانون سب کے لئے برابر کا عملی مظاہرہ چند دن پہلے دبئی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہے۔دبئی کے انسان دوست ایئرپورٹ پر امیگریشن کا جدید خودکار سسٹم، فری وائی فائی، شہر میں صفائی و ٹریفک کا مربوط نظام، کسی ایک بھی شخص کو قطعی طور پر جلدی نہ تھی، نہ کوئی سگنل کراس کر رہا تھا اور نہ ہی اپنی لین سے دوسری لین میں پنگے لے رہا تھا، ایک گاڑی سے دوسری گاڑی کا مناسب فاصلہ، نہ ہارن، نہ دھواں، نہ بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ کے سڑکوں پر دندناتی کھٹارا گاڑیاں، نہ بسوں کی چھتوں پر بیٹھے لوگ، نہ کوچوں کے اندر اوورلوڈنگ، نہ گنے اور بھوسے سے لدی ٹرالیاں، نہ ہر چوک چوراھے پر سبزی و فروٹ کی بے تکی کھوتا ریڑھیاں، نہ گاڑی سے کوڑا کرکٹ باہر پھینکنے کا رواج، نہ پان کی پیک یا تھوک، نہ گالم و گلوچ، نہ بغیر ہیلمٹ، سیفٹی گلوز و گھٹنوں کے پیڈ بنا بیوی بچوں کے ساتھ موبائل چلاتے موٹرسائیکل روڈ پر لانے کی اجازت اور تو اور گریٹ قائدین، جنرل پرویز مشرف اور کئی بڑی پاکستانی قد آور سیاسی شخصیات و پراپرٹی ٹائیکون کے معالج میرے جگری دوست ڈاکٹر معید دبئی کے مشہور و معروف امریکن اسپتال میں بطور ایمرجنسی کنسلٹنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں،ان کی ماحول دوست الیکٹرک ٹیسلا گاڑی میں بیٹھ کر دبئی کی شاہراؤں پر گھومنا ایک نیا تجربہ تھا۔
انکی ہمراہی میں جمعہ کے روز نماز کی ادائیگی کے وقت مجھے صفیں پھلانگتے ایک شخص نہیں ملا، صاف ستھرا واش روم، وضو خانہ بمعہ فلٹرڈ واٹر، ڈسپوز ایبل گلاس، ایک جگہ پر مردوں کے باندھنے کے لئے زیرو میٹر تہبند اور عورتوں کے لئے نئے نویلے برقعے و سکارف سب کچھ فری آف کاسٹ پہننے کے لئے پڑے تھے۔
خطیب محترم نے خطبے کے دوران فرقہ واریت اور چنگاڑنے سے پرہیز کیا۔میں نے ایک ہی جگہ مسجد، کلیسہ پائے۔ مشروب مغرب کی فروانی دیکھی۔مجھے اس سب کے باوجود کہیں بھی اسلام خطرے میں نظر نہیں آیا۔ڈاکٹر معید کے بقول یہاں قانون سے رائل فیملی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ٹریفک کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے اور جیل یاترا بھی ہو سکتی ہے۔
میں نے ڈاکٹر معید سے ایک رات کھانے پر پوچھا،پاکستانیوں کے ویزے کیوں بند ہیں؟ صرف فیملی ویزہ مل رہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا۔امارات کی حکومت پاکستانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، آپ کو تو بخوبی علم ہے۔یو اے ای کے حکمران دوستوں کی بدولت پاکستان میں اس وقت بھی دوسو پچاس سے زائد عوامی فلاح کے کام جاری و ساری ہیں باالخصوص آپ کے آبائی شہر رحیم یار خان کے ریگستان میں صاف پینے کے پانی کے لازوال منصوبے سرفہرست ہیں،اس سلسلہ میں تلور افزائش نسل کی روح رواں ہوبارہ فاؤنڈیشن کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔
اب ویزہ ایشو نہ کرنے سے متعلق سوال یہ ہے؟
اتنے سالوں سے ہماری خیرخواہ اماراتی حکومت بھلا کیونکر پاکستانیوں کو ویزے جاری کرنے سے آنکھیں چرائے گی۔اصل کہانی مٹھی بھر پاکستانیوں کے جھوٹ، فراڈ، مدت سے زائد قیام، بھکاریوں کے غولوں اور سوشل میڈیا کی بکواس سے جڑی ہے۔یہ عارضی پابندی مجبوری کے تحت ملک کی حفاظت کی پیش نظر لگائی گئی ہے،
یہاں مبارکباد کی مستحق دبئی کے عوام بھی ہیں جو اپنے دیس پاکستان کی طرح دھرنے، جلسہ، جلوس، بینر، نعرے، بند راستوں سے پالا نہیں پڑ رہا ہے اور نہ ہی فرد واحد افواج یا حکمرانوں کا گالیوں سے استقبال کر رہا ہے اور نہ ہی مخالفین کو مارنے پیٹنے، جیلوں میں بند کرنے کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ہر بندہ اپنے کام سے کام اور دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کر رہا ہے۔عدالتیں،_ انفورسمنٹ ایجنسیاں آزاد فضاؤں میں سانس لے رہی ہیں جبھی تو یہ معاشرہ زمین پر جنت بنا ہوا ہے۔اس ناچیز نے لگے ہاتھوں کھانے کی ٹیبل پر ملاوٹ، کم تولنے، جعلی ادویات کا اپنا پرانا رونا بھی رو دیا۔ڈاکٹر معید نے فوڈ کوالٹی پر نو کمپرومائز کی نوید سنائی، ملاوٹ، کم ناپ تول، جعلی ادویات، عطائیت، اعضاء کی غیر قانونی پیوند کاری کو ناقابل معافی جرم قرار دے دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر جی نے ساتھ یہ بھی کہہ دیا۔
دبئی میں علاج خاصا مہنگا ہے لیکن انشورنس سے ہو جاتا ہے مگر دونمبری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ڈاکٹر معید نے کہا۔دبئی میں ٹیکس چوری گناہ کبیرہ ہے،دبئی میں بجلی و گیس کی ایکسٹرا بلنگ کا تو سوچا ہی نہیں جا سکتا ،دبئی چائنہ کٹنگ، قبضہ مافیا، منی لانڈرنگ کے آسیب سے مبرا ہے۔دبئی کے سرکاری دفاتر میں رشوت دئیے بغیر ہی سب کام مقررہ وقت پر ہوتے ہیں۔ذرا پرنٹ، الیکٹرانک و سوشل میڈیا بارے بھی بتا دیجئیے،انہوں نے بتایا۔دبئی میں میڈیا سٹی تو آپ نے خود دیکھا ہے۔دبئی میں ویٹس اپ کال نہیں ہو سکتی۔میڈیا کا ضابطہ اخلاق ہے۔یہ لوگ فیک نیوز، سوشل میڈیا کے گند، فحش ویڈیو جیسی خرافات سے پاک ہیں۔
راقم چونکہ طبی کانفرنس پر مدعو تھا۔علم کے ساتھ ساتھ تفریحی مقامات سپورٹس سٹی، ڈیزرٹ سفاری اور سمندر کے درشن بھی کئے۔
قیام کے آخری دن دبئی سے واپس آتے دل اداس تھا۔
ایئرپورٹ آتے ہوئے۔میں نے ڈاکٹر معید سے کہا۔کیا ہم پاکستان میں یہ سب کچھ کر سکتے ہیں؟ڈاکٹر جھٹ بولے۔ہاں کر سکتے ہیں،اگر ہر پاکستانی قانون کی حکمرانی کا تاج پہن لے۔میں نے سرد آہ بھر کر بولا۔خدا کرے۔ہم اپنی زندگی میں وہ دن دیکھ سکیں۔آمین۔