کچھ توجہ طلب معاملات

فائلر اور نان فائلر کا ایشو ماضی میں بھی رہا ہے اور اس پر بات بھی ہوتی رہی ہے، لیکن حکومت کی جانب سے سب کو فائلر بنانے اور نان فائلر والا معاملہ ختم کرنے کے بارے میں جس تیزی اور شدت کے ساتھ اب بات کی جا رہی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں کی گئی۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ فائلر نہ بنے تو آپ کے اکاؤنٹ فریز ہو جائیں گے یا سم بلاک کر دیں گے اور یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے۔ اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ جن کے ذمے بھی ٹیکس واجب الادا ہیں انہیں وہ ٹیکس ادا کرنا چاہئیں، کیونکہ یہ عوام کا فرض اور ریاست کا حق ہے، لیکن پتا نہیں یہ کیوں سوچا جا رہا ہے کہ سب نان فائلرز کو اگر فائلرز بنا لیا جائے تو ریونیو میں اضافہ ہو جائے گا۔ میرے خیال میں تو ایسا ممکن نہیں ہے، کیونکہ اس وقت بھی نان فائلرز فائلرز کی نسبت زیادہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں، کیونکہ حکومت نے ان پر ٹیکسوں کی شرح زیادہ رکھی ہے۔ سارے نان فائلرز اگر فائلر بن گئے تو ظاہر ہے وہی ٹیکس ادا کریں گے جو فائلرز ادا کر رہے ہیں اور جو نان فائلرز سے کم، بلکہ نصف ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ساری آبادی پڑھی لکھی نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ فائلر بننے کے فائدوں اور نان فائلر رہنے کے نقصانات سے آگاہ نہیں ہیں۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ فائلر کیسے بنا جاتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ ہماری آبادی کا 65 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو سکولوں، کالجوں یا یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور جن کا ذریعہ معاش ابھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے اخراجات کے حوالے سے اپنے والدین کے مرہون منت ہیں۔ پھر ہماری کل آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور زیادہ تر خواتین گھریلو ہیں،یعنی 65 فیصد بچے اور نوجوان پھر کل آبادی کا 50 فیصد خواتین، یہ سب ظاہر ہے کہ فائلر نہیں بن سکتے، کیونکہ ان کی اپنی نہ کوئی انکم ہے اور نہ ہی اثاثہ۔ ان سارے لوگوں کو نکال دیا جائے تو آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ بچتا ہے جو ٹیکس ادا کر سکتا ہے اور جسے ٹیکس ادا کرنا چاہئے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے ممالک کی معیشت میں ایک متوازی معیشت (Parallel economy) ہوتی ہے اور ہمیشہ چلتی ہے اور اس کو ابھی تک کوئی روک نہیں سکا ہے۔ اس لئے نان فائلرز کو فائلرز میں تبدیل کرنے میں اس تیزی کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ پانچویں بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے انہی لوگوں پر ٹیکسوں کی شرح میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے،جو پہلے سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں یا جو پہلے سے فائلر ہیں اور ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوئی بڑی اور واضح کوشش نظر نہیں آتی جو روزانہ لاکھوں کماتے ہیں اور ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے۔ حکومت کو پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کی جیبوں پر بوجھ بڑھانے کے بجائے سب سے پہلے ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کرنی چاہئے جو لاکھوں کمانے کے باوجود ٹیکس ادا کرنے سے گریزاں ہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حکومت کے نافذ کردہ ہر طرح کے ٹیکس ادا کیے جانا چاہئیں اور حکومت کو ٹیکس وصول کرنا چاہئیں، ریونیو اکٹھا کرنا چاہئے، لیکن ٹیکس دینے والے یہ سوال اٹھانے میں تو حق بجانب ہیں کہ جو ٹیکس وہ حکومت کو ادا کرتے ہیں، وہ جاتا کہاں ہے؟ کہ ان کی جانب سے مسلسل ٹیکس ادا کیے جانے کے باوجود ہمارا ملک اربوں ڈالر اور کھربوں روپے کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور اس وقت حالت یہ ہے کہ پاکستان کا ہر شہری کم و بیش تین لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ ٹیکس وصول کرنے کے باوجود یہ بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالنے والے کون ہیں؟ ان کا بھی پتا چلایا جانا چاہئے اور ان کا بھی محاسبہ کیا جانا چاہئے۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف معاملات یہ ہیں کہ پچھلے دنوں میں عمرے کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب گیا ہوا تھا،میں نے یہ بات نوٹ کی کہ ہماری قومی ایئر لائن پی آئی اے کے جہازوں کو سعودی عرب والے اپنے نئے ایئر پورٹ پر اترنے کی اجازت نہیں دیتے اور ہماری فلائٹوں کو پرانے ایئر پورٹ پر اتارا جاتا ہے۔ کیا یہ ہماری بے عزتی نہیں ہے کہ ہمارے دوست ممالک ہمارے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں؟ یا پھر ہماری حیثیت ہی یہ ہے کہ ہم کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہیں؟ ایک اور بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں پاکستان والوں کے کریڈٹ کارڈ ہی نہیں چلتے۔ وہاں ہمارے کریڈٹ کارڈز کو قبول ہی نہیں کیا جاتا۔ جب انہیں یہ پتا چلتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں تو وہ کریڈٹ کارڈ کے استعمال سے صاف انکار کر دیتے ہیں اور اگر آپ کے لئے کوئی چیز خریدنا ضروری ہے تو وہاں پر کیش ادا کرنا پڑتا ہے۔
حالات اس حد تک گمبھیر ہو چکے ہیں کہ یہاں سے کچھ پاکستانی گروہ عمرے کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب جاتے ہیں۔ وہاں وہ عمرہ ادا کرتے ہیں یا نہیں اس بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن یہ خبریں سننے میں آئی ہیں کہ وہ وہاں پر بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں اور عمرے کا سارا وقت مانگ تانگ کر وہ اچھی خاصی رقم جمع کر کے پاکستان واپس آتے ہیں۔ ظاہر ہے جب حالات ہم خود اس حد تک خراب کریں گے تو پابندیوں کا شکار بھی بنیں گے۔ یہ وہ معاملات ہیں جن پر عام آدمی کو بھی توجہ دینی چاہئے اور حکومت کو بھی دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ ان مسائل کا حل کیا ہو سکتا ہے۔ حالات اور معاملات میں تبدیلی اور بہتری یقینا ناگزیر ہے، لیکن یہ صرف عوام اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ان کو سوچنا اور پرکھنا چاہئے جو اکٹھے کئے گئے ٹیکسوں کو استعمال کرتے ہیں۔ کیا ادھر سے کوئی کوشش نظر آتی ہے کہ لوگوں کی محنت کی کمائی کا مناسب استعمال کیا جائے؟ حکومتی سطح پر سادی اختیار کرنے کے دعوے کئی بار کیے گئے۔ کمیٹیاں بٹھا کر ان سے تجاویز اور مشورے بھی طلب کیے گئے، لیکن کوئی بتائے گا کہ ہمارے حکمرانوں کے طرزِ زندگی میں اس کا کوئی پر تو نظر آتا ہے؟ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ارباب بست و کشاد حالات کو بہتر بنانے اور معاملات کو درست نہج پر لانے کے سلسلے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔
٭٭٭٭٭