ڈونلڈ ٹرمپ کیوں جیتے؟

Nov 07, 2024

نسیم شاہد

ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے47ویں صدر منتخب ہو گئے۔ وہ ایک وقفے سے دوسری بار صدر منتخب ہوئے ہیں،اُن کے مقابل کملا ہیرس تھیں جو شکست کھا گئیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا اتنی اکثریت سے جیتنا دنیا کو حیران کر گیا ہے۔انہوں نے پاپولر اور الیکٹورل رول ووٹوں میں کامیابی حاصل کی ہے،بہت سی ایسی وجوہات ہیں،جن کے بارے میں امریکہ سے باہر رہ کر نہیں جانا جا سکتا۔امریکی عوام اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں وہاں ہمیشہ ایک واضح فرق ہوتا  ہے، جس کا اظہار وہ اپنے ووٹ سے کرتے ہیں،فرق صرف یہ ہے کہ امریکی  عوام کو اپنی رائے چوری ہونے کا ڈر نہیں ہوتا، وہاں فارم45اور47 جیسا مینوئل دقیانوسی ووٹنگ کا نظام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ چاہتے ہوئے بھی اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتی، ہمارے ہاں میڈیا نے جس طرح کے تجزیے کئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کے امکانات کو بڑھا چڑھا کے پیش کیا، امریکی عوام کی سوچ اس سے کہیں مختلف تھی، امریکہ اگر سپر  پاور ہے تو اس کی وجہ یہ ہے وہاں کے عوام آزادانہ سوچتے اور اپنے معروضی حالات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کئی وجوہات کے باعث کملا ہیرس سے آگے تھے،اُن کی پالیسیوں میں امریکی عوام کے لئے زیادہ کشش تھی، پھر سب سے اہم بات یہ تھی کہ کملا ہیرس اُس نظام میں نائب صدر رہی تھیں،جس سے امریکی عوام گذشتہ چار برسوں میں نالاں رہے۔جوبائیڈن کے بارے میں کہا جاتا ہے، وہ امریکی تاریخ کے سب سے کمزور صدر تھے پھر یہ بات بھی ایک کھلی حقیقت تھی کہ امریکی عوام یہ سمجھتے تھے ظاہری صدر جوبائیڈن ہیں،اختیارات کملا ہیرس استعمال کرتی ہیں،جوبائیدن کی صحت خاص طور پر ذہنی صحت کے بارے میں جو خبریں آتی رہیں،وہ اِس بات کو تقویت دینے کے لئے کافی تھیں کہ کملا ہیرس ملک کا نظام چلا رہی ہیں ایسے میں ڈیمو کریٹک پارٹی نے انہیں صدارتی امیدوار نامزد کر کے جو غلطی کی تھی،اُس کا نتیجہ سامنے آ گیا۔امریکی عوام کئی حوالوں سے جوبائیڈن انتظامیہ کی پالیسیوں سے نالاں تھے،جن کا ذکر آگے آئے گا،اگر ڈیمو کریٹک پارٹی امریکی عہدیداروں سے ہٹ کسی کو امیدوار بناتی تو شاید عوام اُس سے بہتری کی توقع باندھ لیتے،کملا ہیرس تو اُس ناکام حکومت میں شامل تھیں اور ہر فیصلے میں شریک رہیں اس لئے اُن کی شکست یقینی تھی، ڈونلڈ ٹرمپ دوسری طرف بہت سے حوالوں سے عوام کی دوبارہ اُمید بننے کے قابل تھے، مثلاً اُن کے پچھلے دور میں کرونا آ گیا،امریکی زندگی مفلوج ہو گئی، معیشت کو بھی نقصان پہنچا،اِس لئے امریکی عوام کا خیال تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو ڈونلڈ ٹرمپ بہت کچھ کر سکتے تھے جبکہ دوسری طرف ایک ایسی امیدوار تھیں،جنہیں آزمایا جا چکا تھا اور جوبائیڈن انتظامیہ کی کلیدی عہدیدار ہونے کی حیثیت سے اُس حکومت کی بری پالیسیوں اور ناکامی کا بھار اُن کے کاندھوں پر موجود تھا۔

ہم پاکستانی یہاں بیٹھ کے سمجھتے ہیں امریکہ جس جنگی جنون میں مبتلارہتا ہے، وہ امریکی قوم کی پالیسی ہے، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔امریکی عوام بنیای طور پر امن پسند اور جنگ  کے خلاف  ہیں غزہ میں جو ظلم ہوا اور ہو رہا ہے اس کے خلاف سب سے بڑے مظاہرے امریکہ میں ہوئے، خاص طور پر امریکی نوجوانوں نے اُن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا یہ عام نوجوان نہیں تھے،بلکہ ہارورڈ جیسی بڑی یونیورسٹیوں کے طلبہ  و طالبات تھے،جو اپنی سوچ اور رائے رکھتے ہیں۔امریکہ اگر دنیا  میں اپنا تسلط برقرار رکھنے  کے لئے اسلحے اور طاقت کی سیاست کرتا ہے تو یہ اُس کی اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ ہوتا  ہے۔امریکی عوام اسے پسند نہیں کرتے۔جوبائیڈن رجیم میں جو سب سے زیادہ ظلم ہوا اور امریکہ نے اسرائیل کی کھلی حمایت کر کے خود کو اُس قتل ِ عام میں فریق بنایا اُس کا امریکی رائے عامہ میں بہت برا منایا گیا، اسی نفرت کا فائدہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہوا،کملا ہیرس کو ووٹ دینے کا مطلب یہ ہوتا کہ امریکی عوام مشرقِ وسطیٰ  کے حوالے سے امریکی پالیسی کے حق میں ہیں،جبکہ وہ حق ہی نہیں،بلکہ خلاف ہیں اور اس کا اظہار انہوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے کر دیا ہے۔کملا ہیرس کی شکست اور ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کا سبب ایک اور پہلو بھی ہے۔ معروف بلاگر دانشور بیناگوئندی نے اِس حوالے سے بہت اہم بات بتائی۔ وہ آج کل واشنگٹن میں ہیں اور امریکی انتخاب پر بھرپور نظر رکھے ہوئے تھیں۔انہوں نے کہا امریکی معاشرے کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ دنیاوی ترقی کے لحاظ سے یہ بہت جدید ہے،مگر مذہبی روایات اور اخلاقیات کے حوالے سے بہت قدامت پسند ہے۔کملا ہیرس کی شکست کا ایک بڑا سبب اُن کا عورت ہونا بھی ہے۔ امریکی آج بھی یہی سمجھتے ہیں عورت حکمرانی کے لئے نہیں بنی،یہی سوچ ہیلری کلنٹن کی شکست کا باعث بھی بنی تھی اور اسی سوچ نے کملا ہیرس کو بھی شکست سے دوچار کیا ہے۔ کملا ہیرس کی شکست اس وجہ سے بھی ہوئی کہ انہوں نے میرا جسم میری مرضی کے نظریے کو اپناتے ہوئے اسقاطِ حمل کی حمایت کی۔اس وقت امریکی قانون کے مطابق تین ماہ کے بعد اسقاطِ حمل نہیں کرایا جا سکتا، جبکہ کملا ہیرس نے اپنی انتخابی مہم میں یہ نعرہ دیا کہ اسقاطِ حمل عورت کا حق ہے وہ  کسی وقت بھی کرا سکتی ہے۔امریکی معاشرے میں جو بزرگ نسل ہے وہ اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو اپنی زندگی کا ناگزیر حصہ سمجھتی ہے۔ اُن کے نزدیک یہ پالیسی ناقابلِ قبول تھی کہ اسقاطِ حمل کے نام پر بچوں کے  قتل عام کی اجازت دی جائے جیسا کہ پہلے کیا گیا ہے۔ امریکی معاشرہ بنیادی طور پر مذہبی اور قدامت پسند ہے جس کے باعث کملا ہیرس کی اِس حوالے سے مہم کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پاپولر ووٹ سے محروم ہو گئیں۔

ایک اور پہلو جس کے باعث ڈونلڈ ٹرمپ کو فتح نصیب ہوئی وہ امریکی اکانومی کی بدحالی ہے۔امریکہ کا مسئلہ یہ  ہے کہ اُس نے دنیا پر اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لئے بے پناہ فنڈنگ کرنی ہوتی ہے،جوبائیڈن دور میں افراطِ زر بہت زیادہ بڑھا اور ڈالر چھاپ کے کام چلایا جاتا رہا۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں ٹیکسوں میں کمی لانے کا اعلان کیا جبکہ اِس وقت امریکہ میں ٹیکس کی شرح آمدنی کے50فیصد تک پہنچ جاتی ہے اور وہاں ٹیکس نہ دینے یا آمدنی چھپانے کا امکان بھی نہیں ہوتا اگر امریکی عوام کملا ہیرس کو منتخب کرتے توگویا موجودہ پالیسیوں کا تسلسل جاری رہتا اور وہ جس معاشی دباؤ کا شکار ہیں، اُس میں مزید چار سال تک جکڑے جاتے۔اِس وقت امریکہ سب سے زیادہ چین کا مقروض ہے ایک طرف قرضوں پر چلنے والی معیشت ہے اور دوسری طرف دنیا بھر میں اپنی سپر پاوری کی دھاک بٹھانے کے لئے امداد کرنے کی پالیسی بھی برقرار رکھنی ہے،جس سے امریکی عوام بنیای طور پر نالاں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر قانونی تارکین وطن کی بے دخلی کو بھی امریکی عوام کی تائید حاصل ہے،کیونکہ اُن کے خلاف ہیں یہ تارکین وطن اپنی غیر قانونی حیثیت کی وجہ سے ویجز میں کمی کا باعث بنتے ہیں،جن سے امریکی شہریوں کو نقصان پہنچتا ہے۔بہرحال ہم پاکستانیوں کے لئے دلچسپی کا نکتہ یہ ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں،اِس حوالے سے عوام کی اُمیدیں بہت زیادہ ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں