ڈینگی پر کنٹرول :اہل ِپنجاب کو مبارک

ڈینگی پر کنٹرول :اہل ِپنجاب کو مبارک
ڈینگی پر کنٹرول :اہل ِپنجاب کو مبارک

  


پنجاب، خصوصاً لاہور کے عوام کو مبارک ہو کہ رواں سال ڈینگی کا مرض وبائی شکل اختیار نہیں کر سکااور جو آفت گزشتہ سال عوام کے لئے وبال جان بن گئی تھی، وہ حکومت ،عوام اورمیڈیا کی مشترکہ کوششوں سے اس سال انتہائی محدود ہے -بلا شبہ اس کا کریڈٹ براہ راست وزیر اعلیٰ پنجا ب محمد شہباز شریف کو جاتا ہے، جنہوں نے 2011ءکے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے شروع دن سے ہی ڈینگی کی روک تھا م کے لئے ٹھوس اقدامات کئے- 2011ءمیں جب یہ افتاد اچانک آن پڑی تواس وقت بھی خادم پنجاب نے ہنگامی بنیادوں پر ڈینگی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے اقدامات کئے -ایک طرف سپرے اورفوگنگ کے لئے بڑے پیمانے پر انتظامات کئے گئے ،فوری طور پر بذریعہ ہوائی جہاز ضروری آلات ،مشینری ،فوگنگ مشینیں وغیرہ بیرونی ممالک سے ایئر لفٹ کروائی گئیں تو دوسری طرف ہسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کیلئے خصوصی وارڈز اور ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس قائم کئے -ڈاکٹروں ،نرسوں اور پیرا میڈکس کی تربیت کے لئے جنگی بنیادوں پر انتظامات کئے گئے - ڈینگی کی وباءپر قابو پانے کے لئے سری لنکا ،تھائی لینڈ اور دیگر ممالک کے طبی ماہرین کو بلایا گیا جنہوں نے مقامی ڈاکٹروں اور ماہرین حشرات کو ڈینگی کے مرض کے علاج اور اس کی روک تھام کے سلسلے میں رہنمائی فراہم کی-
یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ گزشتہ سال کی ڈینگی کی وباءسے پہلے ہمارے ماہرین اور ڈاکٹر اس مرض کی نوعیت ،مریضوں کے علا ج اور اس کی روک تھا م کے بارے میں پوری طرح آگاہ نہیں تھے اور نہ ہی قبل ازیں انہیں اس قسم کی صورت حال سے واسطہ پڑا تھا- ڈینگی کی اس وباءنے بہت سخت نقصان پہنچایا ۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق25ہزار سے زائد کنفرم مریض رپورٹ ہوئے، جبکہ 3 سو سے زائد لوگوں کی جانیں گئیں-ماہرین کے مطابق مریضوں کی بہت بڑی تعدادگھروں میں ہی صحت یاب ہو گئی جو رپورٹ نہیں ہوئے-یہ بہت بڑا نا قابل تلافی نقصان تھا تاہم بیرونی ممالک سے آئے ہوئے ماہرین خصوصا سری لنکا کے ڈاکٹراور ماہرین حشرات نے اس بات کا بر ملا اظہار کیا کہ اگر وزیر اعلیٰ پنجا ب محمد شہباز شریف اور حکومت پنجاب ڈینگی کی وباءسے نمٹنے کے بروقت اور ہنگامی بنیادوں پرانتظامات نہ کرتے تو خدانخواستہ اموات کی تعداد ہزاروں تک پہنچنے کا خدشہ تھا -انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ پنجاب کے ڈاکٹروں نے بہت مختصر وقت میں ڈینگی کے سلسلے میں وہ مہارت حاصل کر لی ہے، جس تک پہنچنے میں ان کے ماہرین کو کئی دہائیاں لگ گئیں-
وزیر اعلیٰ پنجاب نے 2011ءمیں ڈینگی وباءسے ہونے والے قیمتی جانی نقصان اور عوام کو پہنچنے والی شدید اذیت کو دل سے محسوس کیا اور انہوں نے اس بات کا تہیہ کیا کہ وہ اس موذی مرض سے عوام کی جان چھڑانے کے لئے تمام حکومتی مشینری اور وسائل بروئے کار لائیں گے اور ہر قیمت پر اس جن کو دوبارہ بوتل میں بند کیا جائے گا-وزیر اعلیٰ نے ڈینگی کو ہر قیمت پر کنٹرول کرنے کے کام کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور وہ جنون کی حد تک اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے میں لگ گئے-وزیر اعلیٰ نے تمام متعلقہ محکموں کے اعلیٰ افسران ،منتخب عوامی نمائندوں ،سول سوسائٹی،میڈیا غرض معاشرے کے تمام طبقات کو اپنے ساتھ ملا کر ایک پلیٹ فارم پر ڈینگی کے خلاف متحد کیا اور ایک ایسی تحریک کو جنم دیا جس کی بدولت ایک طرف عوام میں ڈینگی کے بارے میں بیداری کی لہر دوڑ گئی تو دوسری طرف حکومتی سطح پر دن رات ویکٹر سرویلنس ،لاروی سائیڈنگ کی سرگرمیاں شروع ہو گئیں -تعلیمی اداروں،سرکاری دفاتر ،قبر ستانوں ،بس اڈوں،ٹائر شاپس ،گھروں کے علاوہ پارکوں، غرض ڈینگی کی افزائش کا سبب بننے والی ہر شے میں ڈینگی کی تلاش شروع کر دی گئی اور ہر طرف ایک ہی نعرہ گونجنے لگا کہ پانی جمع نہیں ہونے دیناتا کہ مچھر پیدا نہ ہو -وزیر اعلیٰ نے ڈینگی کے مریضوں کے علاج کے لئے سینئر ترین پروفیسروں و طبی ماہرین پر مشتمل ڈینگی ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ تشکیل دیا جو صوبے کے تمام ہسپتالوں کو انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے مطابق مریضوں کے علاج کے لئے رہنمائی فراہم کر رہا ہے ، علاوہ ازیں ڈینگی مچھر پر تحقیق کے لئے بھی چیف منسٹر نے ڈینگی ریسرچ سیل قائم کیا گیا ہے -
2011ءسے پہلے ڈینگی کنٹرول کرنے کے لئے محکمہ صحت میں کوئی الگ شعبہ موجود نہیں تھا وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوری طور پر ڈینگی کنٹرول پروگرام شروع کروایا، جس کا سر براہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ویکٹر باران ڈیزیز ہے -یہ ایک نیاعہدہ ہے ۔اس پروگرام کے شروع ہو نے کے بعد صورت حال میں بہت بہتری آئی ہے -لاہور اور دیگر اضلاع میں آﺅٹ ڈور اور ان ڈور ویکٹر سرویلنس اور لاروی سرویلنس کے لئے سروے مسلسل جاری ہے اور جہاں سے لاروا نکلتا ہے، اسے تلف کرنے کے لئے مکینیکل اور کیمیکل طریقے اپنائے جاتے ہیں -ان تمام سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے تشکیل کردہ کابینہ کمیٹی کے ہفتہ وار اجلاس باقاعدگی سے ہو رہے ہیں -ٹاﺅن کی سطح پر رسپانس کمیٹیوں کے اجلاس منتخب عوامی نمائندوں کی موجودگی میں منعقد کر کے نچلی سطح پر ان تمام سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جا رہا ہے -ہسپتالوںمیں تربیت یافتہ ڈاکٹراور نرسیں مریضوں کی تشخیص و علاج کے لئے تعینات کئے گئے ہیں، علاوہ سی بی سی ، الائزا مشینیں اور دیگر آلات بھی تمام ہسپتالوں کو مہیا کئے گئے ہیں -حکومت نے عوامی آگاہی کے لئے پورے صوبے میں سیمینارز ،آگاہی واکس کے علاوہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھر پور آگاہی مہم چلائی اور سرکاری سطح پر ڈینگی ڈے منائے گئے -ان تمام سرگرمیوں میں عوام نے بھر پور شرکت کی -
حکومت اورعوام کی مشترکہ کوششوں سے رواں سال ڈینگی کا مرض تقریباً معدوم ہو چکا ہے، اگر گزشتہ اور رواں سال کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو اکتوبر 2011ءکے پہلے ہفتے میں 20ہزار 313افراد نے ڈینگی کے شبہ میں سی بی سی ٹیسٹ کرایا تھا، جبکہ رواں سال صرف 3653لوگوں نے یہ ٹیسٹ کروایا ہے -اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوںکے ذہنوں سے ڈینگی کا خوف بہت حد تک نکل چکا ہے -گزشتہ سال اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ڈینگی کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 12ہزار 472تھی ،جبکہ رواں سال اب تک یہ تعداد صرف 196ہے -اسی طرح گزشتہ سال ان تاریخوں میں مختلف ہسپتالوں میں ڈینگی کے 259مریض زیر علاج تھے، جبکہ آج صرف 6مریض ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں - یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سری لنکا میں رواں سال بھی 48ہزار سے زائد ڈینگی کے کیس رپورٹ ہو چکے ہیں -
ان اعدادوشمار سے یہ بات بہت واضح ہے کہ ڈینگی کے مرض پرکنٹرول کرنے میں حکومت پنجاب پوری طرح کامیاب رہی ہے اور اس کامیابی میں حکومت ،عوام ،میڈیا ،سول سوسائٹی نے بھر پور طریقے سے اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں، لیکن یہ کامیابی شاید ہمیں حاصل نہ ہوتی ،اگر وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف ڈینگی کے خلاف اس مہم کی قیادت نہ کرتے اور ان کی زیر نگرانی تمام محکموں کے افسران کی انتھک محنت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے وزیر اعلیٰ کے شانہ بشانہ ہراول دستے کا کام کیا - ڈینگی کاخاتمہ وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم کو مبارک ہو- خدا کرے ہماری یہ کامیابی مستقل ثابت ہو اور عوام کو مستقل بنیادوں پر اس مصیبت سے نجات مل جائے-    

مزید :

کالم -