پاک روس دوستی کا سفر

پاک روس دوستی کا سفر
پاک روس دوستی کا سفر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

غیرجانبدار مبصرین کے مطابق روس کے وزیرخارجہ کا پاکستان آنا اور پاک فوج کے سربراہ کا دورئہ روس ایسی خوشگوار پیش رفت ہے،جس کے مثبت اثرات آنے والے دنوں میں نہ صرف پورے خطے کے خوش آئند مستقبل کے ضامن بن سکتے ہیں، بلکہ دونوں ممالک کے مابین دوستی اور ترقی کا ایسا سفر شروع ہو سکتا ہے،جس کے ثمرات عالمی صورت حال اور بین الاقوامی حالات پر اچھے ڈھنگ سے محسوس کئے جائیں گے۔اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ماضی میں پاک روس تعلقات کئی حوالوں سے قابل رشک نہیں رہے، مگر بدلتے ہوئے عالمی حالات نے دونوں جانب کی قیادت کو اپنے رویوں پر نظرثانی کا موقع فراہم کیا ہے اور اسی پس منظر میں صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ چند برسوں میں ایک سے زائد مرتبہ روس کا دورہ کیا ہے۔ اسی تناظر میں تیسری بار روسی صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد صدر”پیوٹن“ کا دورہ بھی اکتوبر 2012ء کے پہلے ہفتے میں طے تھا، مگر بوجوہ آخری لمحات میں یہ دورہ موخر کردیا گیا۔
سفارتی تجزیہ کاروں نے اس صورت حال کو امریکی اور بھارتی کوششوں کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کھلے راز سے ہر کوئی آگاہ ہے کہ بھارتی حکمران ماضی میں اپنے عزائم کی تکمیل کی غرض سے سابقہ سوویت یونین کو استعمال کرتے رہے ہیں، مگر جیسے ہی امریکہ واحد عالمی قوت کے طور پر سامنے آیا،ویسے ہی دہلی کے حکمرانوں نے اپنی پالیسی بدلنے میں ذرا سی بھی سستی کامظاہرہ نہ کیا اور فوراً امریکہ کے کیمپ میں چلے گئے اور سوویت یونین کے ساتھ اپنی ساری خوشگوار یادوں کو بڑی حد تک بالائے طاق رکھتے ہوئے گویا سب کچھ فراموش کردیا....مگر دہلی کے حکمرانوں نے اپنی روائتی شاطرانہ حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے امریکی آشیرواد سے روسی صدر کے دورئہ پاکستان کو موخر کرانے میں اپنی تمام تر توانائیاں استعمال کیں، مگر بھارت اور امریکہ کو اپنے مقاصد میں جزوی کامیابی ہی ملی،کیونکہ پاک فوج کے سربراہ کا دورئہ روس اور روسی وزیرخارجہ کی پاکستان آمداس امر کی مظہر ہے کہ اسلام آباد اور ماسکو کی قیادت بھارتی اور امریکی عزائم سے قطعاً بے خبر نہیں، لہٰذا بھارت کے ہاتھوں کھلونا بننے سے انکار کردیا۔
مبصرین کے مطابق اگرچہ روس کے صدر نومبر2012ءمیں بھارت آ رہے ہیں، مگر شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دہلی کے عزائم سے بخوبی آگاہ ہیں اور علاقے میں پاکستان کی اہمیت اور پاکستان کی امن پسندانہ پالیسیوں سے بھی صرفِ نظر نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، جس سے توقع کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاک روس تعلقات ٹھوس اور باہمی اتحاد کی بنیادوں پر قائم ہوں گے۔یوں روس اور چین بھی بین الاقوامی سیاست میں ایک بلاک کی شکل میں متحد ہو کر پائیدار عالمی امن کے قیام کی خاطر موثر اور مثبت کردار ادا کریں گے۔ پاکستان اور روس کے مابین اقتصادی،دفاعی اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون کے ان گنت مواقع موجودہیں۔ امید ہے کہ کوئی وجہ نہیں کہ ان مواقع سے مثبت طریقے سے فائدہ اٹھا کر دونوں ممالک نہ صرف اپنے مفادات کو مستحکم کریں گے،بلکہ علاقائی امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کا ماحول پیدا کرنے میں کلیدی رول نبھائیں گے۔یہ امید کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ بھارتی قیادت بھی اپنی روائتی منفی روش کو ترک کرکے سبھی حوالوں سے تعمیری سوچ اپنائے گی۔
اگر بھارت کے ماضی اور حال پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالیں تو ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ قول و فعل کے بدترین تضاد کا شکار ہے،جس کی تازہ مثال 2اکتوبر کو گاندھی جی کے یوم پیدائش پر بھارت کے طول و عرض میں گاندھی کے ”عدم تشدد“ اور”اہنسا“ کے فلسفے کی بابت بھارتی حکمرانوں کی تقریریں ہیں اور اس کے محض ایک روز بعد، یعنی 4اکتوبر2012ءکو اڑیسہ سے پرتھوی ٹو میزائل کا تجربہ ہے۔ایسے دہرے معیار ترک کئے بغیر بھارت کس طرح تعمیری سوچ اپنائے گا....یہ اپنے آپ میں ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔   

مزید :

کالم -