’’ٹیچرز ڈے‘‘ اور ہمارے صمصام صاحب

’’ٹیچرز ڈے‘‘ اور ہمارے صمصام صاحب
’’ٹیچرز ڈے‘‘ اور ہمارے صمصام صاحب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کہتے ہیں انسانی شخصیت کے بنیادی خدوخال سات برس کی عمر تک متعین ہو جاتے ہیں۔یہ نفسیات دانوں کا قول ہے ۔ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے ،لیکن آپ کسی کو ، جس سے آج یہ کالم نویس مراد ہے ، منیر نیازی کے ساتھ ہم آواز ہونے سے روک تو نہیں سکتے کہ ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں مَیں‘‘ ۔ دیر یوں کہ بچپن کا ابتدائی زمانہ تو چھوٹے بھائی کے ساتھ آبائی گھر کے نیلگوں آسمان پر بادلوں کے چڑیاں طوطے تلاش کرتے ہوئے بیتا۔ سات سال کے ہوئے اور والدین کے ہمراہ واہ کینٹ پہنچے تو مال روڈ سے گزرنے والے چہروں کو دیکھتے رہنا معمول بن گیا۔

اسلحہ ساز کارکنوں کے پیدل اور سائیکل سوار چہرے جن پر سوالیہ نشان دکھائی دیتے ۔ پر ایک صبح اچانک ایک باریش شیروانی پوش انسان دکھائی دیا ، جس کے چہرے پہ رقم شادابی نے اُسے ہجوم کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ہجوم سے ممتاز کر دیا تھا۔
دو سال اور گزرے تو ہائی اسکول پہنچ کر پتا چلا کہ فخر سے اکڑی ہوئی یہ گردن مولانا بشیر احمد صمصام کی ہے ۔ سکول میں شعبۂ اُردو کے سربراہ، میگزین کے ایڈیٹر ، ینگ سپیکرز یونین کے سرپرست ۔ مزاج میں وہ بانکپن کہ اپنے تخلص صمصام کی طرح بالکل دو دھاری تلوار ، دائیں چلے تو کاٹے بائیں چلے تو کاٹے ۔ اِن صفات کو سمجھنے میں کچھ وقت لگا، لیکن صمصام صاحب کی خطابت، رعب ملی شفقت اور مزاح کی جھلک تو پہلے ہی دن نظر آ گئی جب داخلہ ٹیسٹ کا نتیجہ انہوں نے ہال کے روسٹرم سے اپنی پاٹدار آواز میں سنایا تھا۔

پاٹ دار آوازیں تو اور بھی تھیں، جن میں سے دوسری عالمی جنگ کی یادگار ، بینڈ ماسٹر غلام سرور نے انگریز سارجنٹوں والے کاشن ازبر کر رکھے تھے ، لیکن اُن کے بارے میں بھی ایک مرتبہ صمصام صاحب نے رازداری سے کہا کہ سرور بھی میری خطابت سے متاثر ہے۔
ورلڈ ٹیچرز ڈے کے حوالے سے جو جمعہ کو منایا گیا، واہ کالج میں پروفیسر اجمل صدیقی سے لے کر سیالکوٹ کے جناح اسلامیہ میں زمرد ملک اور گورڈن کالج، راولپنڈی کے نصراللہ ملک تک، جنہیں امریکی رفیقِ کار پروفیسر گیلئین ’نیذرُل‘ کہہ کر بلاتے، میرے اُستادوں کی ایک کہکشاں کھِلی ہوئی ہے ۔ فرق یہ ہے کہ کالج ، یونیورسٹی کے اساتذہ ہمیں دھیرے دھیرے اپنے دوستوں کی سطح پہ لے آئے تھے۔

مولانا صمصام کی شخصیت کن معنوں میں مختلف تھی ؟ یہ جاننے کے لئے چند لمحے آپ کو اُن کی کلاس میں گزارنا ہوں گے،جہاں آپ کی ’اصلاحِ معاشرہ‘ پہلے سوال سے ہی شروع ہو جائے گی ’’مے آئی کم اِن ، سر ؟‘‘ جواب نہ پا کر آپ اُردو میں کہیں گے ’کیا مَیں اندر آ سکتا ہوں؟‘‘ ’’اور ’سر‘ کہاں گیا؟‘‘ آپ دُہرائیں گے ’’جناب، کیا مَیں اندر آ سکتا ہوں؟‘‘ مطمئن سا جواب ملے گا ’’ہاں آؤ‘‘ ۔
مولانا صمصام کی کلاس میں میرے داخل ہونے کی نوبت تو صرف نویں ، دسویں جماعت میں آ سکتی تھی ، مگر ایک ڈرائی صورت حال کی بدولت ہمارا تعارف اِس سے پہلے ہی ہو گیا ۔ وہ یوں کہ ایک دن سیرت النبیؐ کے لئے نئے مقررین ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ ہماری ساتویں جماعت میں آگئے۔ لڑکوں سے چند جملے پڑھوا کر سُنے اور میرا نام درج کر لیا ۔ میری سادہ لوحی کہ کسی رہنمائی کے بغیر خود ہی ایک تقریر لکھی اور جلسے میں سُنا دی ۔ نیم خواندہ سیاست دانوں کی طرح نو عمری میں میرا بھی یہی خیال تھا کہ خطیبانہ کارکردگی کا واحد پیمانہ جوش و خروش ہے ۔

انعام نہ ملنے پہ مایوسی تو ہوئی ، لیکن ہمارے سیکنڈ ماسٹر شمیم صدیقی نے اسٹینڈ لے لیا کہ یہ لڑکا اچھا بولا ہے ، اِسے اسپیشل پرائز دیا جائے ۔ کسی نے کہا کہ آپ تو جج نہیں ۔ شمیم صاحب نے فیصلہ کن انداز میں کہا ’’مَیں چیف جسٹس ہوں‘‘ ۔ اِس پر مولانا صمصام نے سبز گُڈی کاغذ میں لپٹی ہوئی ایک انعامی کتاب مجھے بھی تھما دی ۔
کوئی ایک سال بعد چھٹی کے وقت سکول سے سیکٹر سولہ کی طرف گھر جاتے ہوئے جناب بشیر احمد صمصام راستے میں مل گئے اور انہوں نے یہ کہہ کر حیران کردیا کہ اِس مرتبہ آل پاکستان سرسید میموریل مباحثہ میں میزبان کے طور پہ ہمارے سکول کی نمائندگی تم کر و گے ۔

یہ سالانہ مباحثہ اکتوبر کے اواخر میں منعقد ہوا کرتا ۔ بڑے پیمانے پر سکولوں کی شرکت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ کی ٹیم بھی شامل ہوئی ۔ تین دن تک ، جو عموماً جمعہ ، ہفتہ اور اتوار کے ایام ہوتے ، ایک جشن کی فضا رہتی ۔

مہمانوں اداروں کو شرکت کے لئے دعوت ناموں کی ترسیل ، ٹھہرنے کے لئے بستروں ، چارپائیوں کی فراہمی اور کھانے کے لئے کوپن جاری کرنا،یہ ینگ سپیکرز یونین کے ذمہ تھا ۔ چنانچہ سب اراکین سینوں پہ پھول نما رنگین بیج لگائے تن دہی سے بندوبست میں مصروف رہتے۔
روایت یہ تھی کہ دو دو طلبہ کو قائدِ ایوان اور قائدِ حزب اختلاف کے طور پر تقریروں کی تیاری کرائی جاتی ۔

کئی دن تک صبح گھنٹی بجتے ہی اسمبلی کے سامنے ریہرسل شروع ہو جاتی ۔ اِس موقع پر سارے سکول کو داد بیداد دینے کی اجازت ہوتی تاکہ مقرر کو سامعین کی بدلتی ہوئی کیفیتوں کا سامنا کرنے کی مشق ہو جائے ۔

دو حتمی مقررین کا چناؤ ہیڈ ماسٹر صاحب خود کرتے۔میرے لئے یہ ایک بڑی آزمائش ثابت ہوئی ۔ وجہ یہ کہ ایک تو مَیں ابھی آٹھویں جماعت میں تھا، جبکہ میرا مدمقابل نسیم رضا دسویں جماعت کا طالب علم۔ دوسرے ہیڈ ماسٹر ناظر الحسن قدوسی کے سامنے بولتے ہوئے مَیں ایک پیرا گراف بھول گیا ۔

تقریر کا مسودہ اُن کے سامنے تھا ۔ اِس لئے سمجھ تو گئے ، لیکن اِس خیال سے کہ مَیں نے کسی کو پتا نہیں چلنے دیا ، انہوں نے بڑی متانت سے کہا ’’یہی لڑکا تقریر کرے گا‘‘۔
سالانہ مباحثہ مولانا بشیر احمد صمصام کے تربیتی نظام کا صرف ایک پہلو ہے ۔ وگرنہ اسکول میگزین کی پروف ریڈنگ کے لیے انہوں نے لیتھو پہ چھپنے والی سولہ سولہ صفحات کی کتابت شدہ کاپیاں میز پہ بچھا کر ہماری مجلسِ ادارت کو جس طرح سافٹ پنسل سے غلطیوں کو نشان زد کرنا سکھا یا ، وہ بھی انہی کا حصہ ہے ۔ صمصام صاحب اصل مسودہ پڑھتے جاتے اور انگریزی و اردو کے اسٹوڈنٹ ایڈ یٹرز میں سے کوئی ایک کاتب کے لکھے ہوئے پیلے کاغذوں پر مطلوبہ جگہ پہ نہایت نفاست سے دائرہ بناتا اور لمبی لکیر کھینچ کر صفحہ کے دائیں یا بائیں حاشیے میں تصحیح شدہ لفظ لکھ دیتا ۔ بیچ بیچ میں صمصام صاحب قدرے فخریہ انداز میں یہ کہتے کہ یہ کام ابھی سیکھ لو ، بخدا کالج میں کوئی نہیں سکھائے گا ۔ چائے کے وقفے میں ہلکی پھلکی گپ شپ رہتی، لیکن بے تکلفی کا دائرہ کیا ہونا چاہئے،اِس کا تعین ہمیشہ استاد نے کیا ۔
ہمارے گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول واہ میں، جسے اب ایف جی سکول کہتے ہیں ، سب طلبہ کے لئے سائنس کی تعلیم لازمی تھی ۔ مستقبل کے ڈاکٹر اور انجینئر اِس کے ساتھ ٹیکنکل ڈرائنگ یا بیالوجی کا مضمون پڑھتے۔

پھر بھی مجھ سمیت چھ سر پھرے ایسے تھے، جنہوں نے سکول کی طے شدہ پالیسی کے مطابق فزکس کیمسٹری تو رکھ لی، مگر اختیاری مضمون کے طور پر فارسی کا انتخاب کیا ۔ درسی کتاب کا نام کتنا اچھا تھا ’سبدِ گُل‘ جسے آج کل کے بچے ’فلاور باسکٹ‘ کہنے پہ اصرار کریں گے ۔

ہم چھ لڑکوں کے لیے ، جو نویں کا امتحان ہوتے ہی سُکڑ کر چار رہ گئے ، ہمارے ادارے کی وسیع و عریض عمارت میں باقاعدہ کمرۂ جماعت تھا ہی نہیں ۔ سو گرمی ہو یا سردی ، کبھی برآمدے میں بیٹھے ہوئے ہیں تو کبھی سائیکل اسٹینڈ کے نواح میں۔

پر جی ، تدریس کہتے کسے ہیں اور حکمت آمیز مکالمے کی لذت ہے کیا ؟ یہ کوئی ہم سے پوچھے ۔ پیدائش تو اُن کی موجودہ اُتر پردیش کے قصبہ حسن پور لوہاری میں اور ابتدائی تعلیم و تربیت مشرقی پنجاب کی ریاست مالیر کوٹلہ میں ہوئی تھی، لیکن برطانوی دور میں سرکاری ادارے کی بجائے صرف نو روپے ماہانہ تنخواہ پر آبائی علاقے سے ہزار بارہ سو میل دُور اسلامیہ سکول قلات میں پڑھانے کا فیصلہ اور پھر زمیندارہ ہائی سکول گجرات میں طویل عرصے تک تدریس، اِن تجربات نے انہیں لسانی تمدن کی کئی تہوں سے آشنا کر رکھا تھا۔
پہلے تو ہر کسی سے نصابی کتاب کا ایک ایک پیرا گراف سنتے ، مگر جدید فارسی تلفظ میں ۔ جیسے قرآن پاک کے بارے میں ایک جملہ تھا : ’ایں کتابِ عزیز برائے رہنمائیء مردم فرستادہ بود‘ یعنی یہ عظیم کتاب انسانوں کی رہنمائی کے لیے بھیجی گئی تھی ۔

اُستادِ محترم نے جو سکھایا وہ میرے اندازے میں قریب قریب یوں لکھا جائے گا : ’اِن کھتابیِ عزیز ۔۔۔برایی رہنمایی ماردُم۔۔۔ فرِستادی بود ۔‘ یہ نہیں کہ سارا زور محض تلفظ پہ تھا ۔ اہم الفاظ و تراکیب کے معانی لکھوا کر اُن کی تشریح شروع کرتے تو جی چاہتا کہ بس بولتے رہیں اور ہم سنتے جائیں ۔ ’درفشِ کاویانی‘ ، ’مارانِ ضحاک‘ اور پتا نہیں ایرانی تاریخ کے کیا کیا قصے ہم نے اِسی دل نشیں پیرائے میں سُنے۔ ایک دن تو مٹی کی ہانڈی میں انگور کی شراب بنانے کی مکمل مرحلہ وار ترکیب بھی بتا دی اور آخر میں فُل ایکٹنگ کے ساتھ یہ جملہ کہ ’’اب ایک قطرہ جو زبان پہ رکھا تو بس جھوم رہے ہیں‘‘۔
اُردو کی کلاس میں ، البتہ ، تعداد کے پیشِ نظر مکالماتی لہجہ خطابیہ اسلوب میں بدل جاتا ۔ یہاں سبق سنتے ہوئے ساکن اور متحرک کے فرق کو ملحوظ نہ رکھنا یا اضافت کی غلطی کو برداشت کر لینا صمصام صاحب کے لئے ممکن نہیں تھا ۔

’’عجب۔۔۔نادان ہیں۔۔۔ جن کو ہے عُجب۔۔۔ تاج سلطانی‘‘ ،جس لڑکے نے یہ بے ربط مصرع پڑھ کر سنایا ، اُس کے ساتھ بڑی خوشگوار بدسلوکی ہوئی تھی۔ پہلے ڈانٹ کر کہا ’’چلے آؤ‘‘ ۔

جب وہ استاد کی میز کے پاس پہنچا تو دو مرتبہ چپت رسید کی ۔ پھر فرمایا ’’کم بخت ہاتھ دُکھنے لگے ۔ کل سے چھڑی لایا کرو ، جی‘‘ ۔ ’جی‘ پہ حکمیہ انداز میں بہت زور ۔ مگر چھڑی کبھی نہ آئی ۔

میری اپنی سرزنش صرف ’سیالکوٹی تلفظ‘ کے طعنے تک محدود رہی ۔ پھر بھی لندن میں بی بی سی اردو کے ایک سینئر ساتھی کو ، جو دہلی کے رہنے والے تھے ، جب مَیں نے ’معزز‘ کا لفظ زیر کے بجائے زبر سے بولنے کی ترغیب دی تو انہوں نے پلٹ کر کہا ’’مگر آپ تو پنجابی ہیں۔‘‘ اِس پہ میرے منہ سے برجستہ نکلا تھا ’’مَیں نے بہت اچھے استادوں سے پڑھا ہے‘‘ ۔

مزید :

رائے -کالم -