کنٹرول لائن عبور کرنے سے پہلے؟
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کشمیر کی کنٹرول لائن عبور کرنا بھارتی ہاتھوں میں کھیلنا ہے جس سے بھارت کو فائدہ ہوگا ایل او سی پار کرنے سے بھارت کو مقبوضہ ریاست میں تشدد بڑھانے اور جنگ بندی لکیر کے اِس طرف حملہ کرنے کا جواز مل جائے گا۔ پاکستان پر ”اسلامی دہشت گردی“ کا الزام لگا کر ظالمانہ قبضے کے خلاف جدوجہد سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں دو ماہ سے جاری غیر انسانی کرفیو میں گھرے کشمیریوں کے کرب کو میں سمجھ سکتا ہوں آزاد کشمیر کے عوام مقبوضہ وادی کے لوگوں کو دیکھ کر تکلیف میں مبتلا ہیں لیکن جدوجہد آزادی کی حمایت یا انسانی امداد کے نام پر کنٹرول لائن کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے۔ لائن آف کنٹرول عبور کرنے کی کال جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے دے رکھی ہے اور اس کے کارکن کنٹرول لائن کی طرف بڑھ رہے ہیں جنہیں روکنے کے لئے چناری اور چکوٹھی کے درمیان جسکول کے مقام پر پولیس کی بھاری نفری نے شاہراہ سری نگر پر کنٹینر، مٹی کے تودے، بجلی کے پول اور خار دار تار لگا کر مکمل ناکہ بندی کر لی پولیس کے سینکڑوں جوانوں نے اردگرد کی پہاڑیوں پر مورچے سنبھال لئے۔ خدشہ ہے کہ کہیں آزاد کشمیر پولیس اور مظاہرین کے درمیان بڑا تصادم نہ ہو جائے، اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں امکان ہے کہ مظاہرین پروگرام کے مطابق چکوٹھی کی جانب بڑھ رہے ہوں گے تاہم اگر انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کی اپیل پر اپنا پروگرام بدل لیا اور کنٹرول لائن عبور کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تو وہ واپس آ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ اپنے اگلے پروگرام کا اعلان کریں گے۔
آزاد کشمیر کی حکومت نے بھی حال ہی میں اس جانب اشارہ کیا تھا کہ اگر بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ نہ روکا اور کرفیو ختم نہ کیا تو اپنے بھائیوں کی امداد کے لئے کشمیری لائن آف کنٹرول عبور کر کے مقبوضہ کشمیر میں گھس جائیں گے اور اپنے کشمیری بھائیوں کی عملی مدد کریں گے لیکن ظاہر ہے یہ جذباتی اعلان اپنی جگہ کتنا بھی پر کشش ہو، عملاً یہ ممکنات میں سے نظر نہیں آتا کیونکہ کشمیر کی کنٹرول لائن عبور کر کے جو لوگ بھی مقبوضہ ریاست میں داخل ہوں گے انہیں وہاں بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا کرفیو کے باعث کشمیری تو دو ماہ سے اپنے گھروں میں بند ہیں اور اس عرصے میں انہیں پوری خوراک ملی ہے اور نہ ادویات، ان کی جسمانی کمزوری کے ساتھ ساتھ ان کا مورال بھی لازماً متاثر ہوا ہوگا کیونکہ جس طرح کے حالات میں ہمارے یہ کشمیری بھائی زندگی گزار رہے ہیں وہ بذات خود اتنے اعصاب شکن ہیں کہ سخت سے سخت اعصاب کا مالک انسان بھی ایسے حالات میں معمول کی زندگی نہیں گزار سکتا، پھر کرفیو کی وجہ سے یہ مجبور لوگ تو اپنے گھروں میں بند ہیں اس لئے جو کوئی بھی آزاد کشمیر کی جانب سے کنٹرول لائن عبور کر کے کشمیر میں داخل ہوگا اسے سب سے پہلے ریاستی اداروں کی طرف سے مسلح مزاحمت کا سامنا ہوگا۔ غالباً اسی جانب وزیر اعظم عمران خان نے بھی اشارہ کیا ہے کہ جو لوگ کنٹرول لائن عبور کریں گے وہ عملاً بھارت کو فائدہ پہنچائیں گے کیونکہ اسے جواز بنا کر بھارت آزاد کشمیر پر حملہ کر سکتا ہے اور پھر حالات خراب سے خراب تر ہو جائیں گے۔
آزاد جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے کنٹرول لائن عبور کرنے کی ایک کوشش امان اللہ خان مرحوم کی زندگی میں 1992ء میں بھی کی تھی اور اس کے کارکن لائن آف کنٹرول کی جانب بڑھنا شروع ہوئے تھے لیکن اس وقت کی حکومت نے انہیں روک لیا تھا اب 27 سال بعد جب امان اللہ خان مرحوم ہو چکے، ان کے جانشینوں نے بھی ایسا ہی قدم اٹھایا ہے، اس دوران کبھی کوئی ایسی کوشش نہیں کی گئی، آزاد کشمیر کی حکومت بھی لائن آف کنٹرول عبور کرنے کی باتیں کرتی رہتی ہے اور صدر مسعود خان تو بار ہا کہہ چکے ہیں کہ بھارت آزاد کشمیر پر حملے کا منصوبہ بنا چکا ہے اور وہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ اس بات کا منتظر ہو کہ کوئی کشمیری لائن آف کنٹرول عبور کرے تو وہ اس کے بعد جوابی کارروائی کے نام پر آزاد کشمیر پر باقاعدہ حملہ کر دے۔ صدر مسعود خان اگر آزاد کشمیر پر حملے کی بات کرتے ہیں تو ظاہر ہے ان کے پاس ایسی اطلاعات ہوں گی لیکن ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی یہ بات آسانی کے ساتھ تصور میں لا سکتا ہے کہ اگر پاکستان کی جانب سے کسی نے کنٹرول لائن عبور کرنے کی کوشش کی تو اسے بھارت کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہوگا اور عین ممکن ہے بھارت اسی لمحے کا منتظر ہو، وزیر اعظم عمران خان نے تو کہہ بھی دیا ہے کہ لائن آف کنٹرول عبور کرنے کی محض کوشش بھی کی گئی تو اس کا فائدہ بھارت اٹھائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں بھی کہا تھا کہ جونہی کشمیر میں کرفیو ختم ہوگا کشمیری عوام اس کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کریں گے، لائن آف کنٹرول اگر کسی نے عبور کرنی ہے تو اس کا بہترین وقت بھی وہی ہوگا۔ جب کشمیری بھارتی اقدامات کے خلاف مورچہ زن ہوں گے اور طویل کرفیو کے بعد بھارتی اقدامات کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے نکلیں گے اس لئے جو کارکن کنٹرول لائن عبور کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں وہ اس کے سیاسی اور عسکری پہلوؤں پر اچھی طرح غور کر لیں تو بہتر ہے ایسا نہ ہو کہ بھارت ان کے کندھے پر بندوق رکھ کر کشمیریوں پر ظلم و ستم کا نیا سلسلہ شروع کر دے اور اس کا ذمہ دار ان لوگوں کو قرار دیا جائے جو کنٹرول لائن عبور کرنے کا پروگرام رکھتے ہیں ظاہر ہے وہ اس اقدام کو اپنی ہی عینک سے دیکھے گا اور یہ کوشش کرنے والوں کو نہ صرف شک کی نظر سے دیکھے گا بلکہ جوابی کارروائی کا جواز بھی بنائے گا اس لئے وزیر اعظم کی بات پر بھی اچھی طرح غور کرنا چاہئے اور خود بھی تمام تر پہلوؤں پر توجہ کر کے کنٹرول لائن عبور کرنے سمیت اگلا قدم اٹھانا چاہئے۔