کشمیر اور ہماری ترجیحات

آج کل جب میں شیخ رشید ، فواد چودھری ، اور مراد سعید جیسوں کے منہ سے یہ سنتا ہوں کہ ”دھرنے سے ملکی معیشت کو نقصان ہوگا،دھرنا ملکی مفاد میں نہیں ہے، ملک اس وقت دھرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا“ تو ہنسی کے ساتھ ساتھ تعجب بھی ہونے لگتا ہے کیونکہ یہ بات وہی لوگ کر رہے ہیں جنہوں نے نہ صرف 126 دن اسلام آباد میں بیٹھ کر طویل ترین دھرنے کی تاریخ رقم کی بلکہ اس سے معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، اسی دھرنے کی وجہ سے نہ صرف چین کے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہوا بلکہ پاکستان کی قسمت بدلنے والا منصوبہ سی پیک بھی کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔
اگر یاد داشت پر تھوڑا سا دباﺅ ڈالا جائے یا گوگل کی مدد لے لی جائے تو ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح خان صاحب ، شیخ رشید اور دیگر پی ٹی آئی رہنما پارلیمنٹ پر حملے کی ترغیب دیتے رہے۔شیخ رشید ’جلادو ، گھیراؤ کرلو اور آگ لگادو‘ کی گردان کرتے نہیں تھکتے تھے۔کیا اس وقت ملکی معیشت کا نقصان نہیں ہوا تھا؟ کس طرح طاہرالقادری صاحب دھرنوں میں کفن لہرانے کی ڈرامے بازی کیا کرتے تھے اور آج جب مولانا فضل الرحمن اسلام آباد کی طرف مارچ کے لئے نکل رہے ہیں تو حکومت کو تباہ ہوتی معیشت یاد آگئی ہے۔سبحان اللہ۔ میں خود بھی ذاتی طور پر موجودہ حالات میں کسی مارچ یا دھرنے کی حق میں نہیں ہوں مگر جناب اس رسمِ بد کی داغ بیل ڈالی کس نے ہے؟ بویا کاٹنا تو پڑتا ہے۔
لمحہ موجود میں حکومت اور اپوزیشن کا مرکز و محور صرف مسئلہ کشمیر ہی ہونا چاہیے، مگر المیہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی اس عمل میں سنجیدہ نہیں ہے۔نہ تو وزیرِاعظم صاحب اس وقت ایک ریاست کے سربراہ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کشمیر کے معاملے پر اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھنے کو تیار ہے۔بطور ریاست کے سربراہ خان صاحب کی ذمہ داری تھی کہ ساری اپوزیشن کو مظفر آباد اکھٹا کرتے اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیتے کہ ہمارے اختلافات اسلام آباد تک ہیں کشمیر کے معاملے پر پوری قوم یک آواز ہے، مگر افسوس یہ نہ ہو سکا۔
پانی بہت تیزی سے پلوں کے نیچے سے گزر رہا ہے اگر اب بھی حکومت اور اپوزیشن نے معاملے کی سنگینی کو نہ سمجھا تو یقین کریں کشمیری کبھی ہمیں معاف نہیں کریں گے۔مولانا صاحب خدارا آپ سے بھی دست بستہ التجا ہے کہ جتنی توانائیاں آپ آزادی مارچ کے لئے صرف کر رہے ہیں اس کا اگر آدھا حصہ کشمیر کی آزادی لئے َصرف کر دیں تو کشمیر کا مسئلہ بہتر طریقے سے حل ہو سکتا ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ ابھی آپ کشمیریوں کے وسیع تر مفاد میں اپنا مارچ ملتوی کر دیں اور اپنا فوکس صرف کشمیر پر رکھیں۔وگرنہ جرمِ ضعیفی کا نتیجہ ہمیشہ َمرگِ مفاجات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
آج کشمیر میں کرفیو کو پورے 65دن ہو چکے ہیں۔پوری وادی کو جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔شاید ہی کشمیر کا کوئی ایسا گھر ہو جہاں کسی عورت کا سہاگ نہ اجڑا ہو۔کوئی بچہ یتیم نہ ہوا ہو یا بوڑھے باپ کا واحد سہارا اس کا جوان بیٹا شہید نہ کردیا گیا ہو۔کتنی ہی ہماری کشمیری مائیں بہنیں ہیں جن کی بھارتی درندوں کے ہاتھوں عصمت دری نہیں کی گئی۔ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔اور یہاں ہمیں اپنی ہی سیاست سے فرصت نہیں مل رہی۔مولانا صاحب اگر کشمیر کے لئے کچھ کر نہیں سکتے تو ان کی راہ میں روڑے بھی مت اٹکائیں۔یہ پتلی تماشہ تو ساری عمر چلتا رہے گا مگر اس وقت کشمیر ہماری ترجیحات میں سرِ فہرست ہونا چاہئے۔کیونکہ یہ ہم پر ایک فرض بھی ہے اور ایک قرض بھی۔۔