بقراط کی بیٹی کو بھی فن طب کے اندر کمال حاصل تھا، وہ اپنے بھائیوں سے بھی زیادہ ماہر تھی
تحریر: ملک اشفاق
قسط:36
بقراط کی دیگر تصانیف
بقراط کی دیگر تصانیف بھی ہیں ان میں کچھ دراصل اس کی نہیں ہیں بلکہ اس کی جانب منسوب کر دی گئی ہیں یہ سب تصانیف درج ذیل ہیں۔
کتاب”اوجاع العذاریٰ“ کتاب”فی مواضع الجسد“ کتاب”فی القلب“ کتاب”فی نباتات الانسان“ کتاب”فی العین“، مکتوب”بنام لسبلوس“ کتاب”فی سیلان الدم“ کتاب ”فی النفخ“ کتاب” فی الحمی المجرقہ“ کتاب ”فی الغدد“ مکتوب بنام”شاہ دیمطریوس“ معروف بہ مقال شافی، کتاب ”منافع الر طوبات“ کتاب”الوصایا“ کتاب ”العہد“ معروف بہ کتاب الایمان۔ بقراط نے اسے متعلمین اور معلمین کے لئے لکھا تھا۔ تاکہ وہ اس کا اتباع کریں اور جو شرطیں اس نے عائد کی تھیں اس کی مخالفت نہ کریں۔ نیز فن کو وراثت کی حد سے نکال کر منصہ شہود پر لانے کی جو جرأت اس نے کی ہے اس سلسلہ میں اس کا دفاع کریں۔ کتاب ”ناموس الطب“ کتاب” الومیہ“ معروف بہ ترتیب طب، اس کتاب کے اندر بقراط نے طبیب کی ضروری پوشاک، شکل اور ترتیب وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔ کتاب ”الخلع“ کتاب” جراحات الراس“ کتاب”اللحوم“ کتاب ”فی تقدمتہ“ مصرفتہ الامراض الکائنتہ ”من تفسیر الہوائ“ کتاب”طبائع الحیوان“ کتاب” علامات القضایا“ یہ 25 قضیے ہیں جن سے موت کا پتہ چلتا ہے۔ کتاب ”فی علامات الجران“ کتاب” فی حبل علیٰ حبل“ کتاب” فی المدخل الیٰ لطب“ کتاب”فی المولودین“(ہفت ماہی) کتاب ”فی الجراح“ کتاب ”فی الاسابیع“ کتاب” فی الجنون“ کتاب ”فی البشور“ کتاب” فی المولودین(ہشت ماہی) کتاب”فی الفصد و الحجامتہ“ کتاب” فی الابطی“ مکتوب بنام شاہ انطیقن برمسئلہ حفظان صحت، رسالتہ”فی مسنونات افلاطن علی ارس“ کتاب” فی البول“ کتاب” فی الالوان“ کتاب”فی الامراض“ کتاب”فی الاحدیث“ کتاب”فی المرض الٰہی“ جالینوس نے”تقدمتہ المعرفتہ“ کی شرح کے مقالہ اول میں اس کتاب کے متعلق لکھا ہے کہ بقراط نے اس کتاب کے اندر لوگوں کے اس خیال کی تردید کی ہے کہ اللہ تبارک و تعلی کسی بھی مرض کا سبب ہوتا ہے۔ مکتوب شاہ اقطیغیوس قیصر روم، یہ مکتوب بنام سال کے مزاج پر انسان کی تقسیم پیش کرتا ہے، کتاب”طب الوحی“ اس کتاب کے اندر ہر وہ بات کہی گئی ہے جو بقراط کے دل میں آئی تھی اور اسے وہ استعمال کرتا تھا چنانچہ نتیجہ دل کے مطابق برآمد ہوتا تھا۔ مکتوب بنام ارتخشرس عظیم فارس، یہ اس زمانہ میں لکھا گیا تھا جب فارس پر دونوں موتیں سایہ فگن تھیں۔ مکتوب بنام اہل ابدیرا، یہ مکتوب ابدیرا والوں کے جواب میں تھا جس میں انہوں نے بقراط کو دیقراطیس کے علاج کے لئے بلایا تھا کتاب”اختلاف الازمنہ والا غذیہ“ کتاب ”ترکیب الانسان“ کتاب”فی استحزاج العضول“ کتاب ”تقدمتہ القول الاول“ کتاب ”تقدمتہ القول الثانی۔“
وفات کے بعد اپنے پیچھے آل اسقلیبوس سے تلامذہ اور اولاد وغیرہ کل14چھوڑے۔ 4 تو خود اس کی اولاد ہیں۔ تاسلوس، ذرا قن اور ان کے2 بیٹے بقراط ابن بن تاسلوس بن بقراط، بقراط بن ذرا قن بن بقراط۔ دونوں بیٹوں کے2 بیٹے تھے جن کا نام انہوں نے دادا کے نام پر رکھا تھا۔ اہل خانہ میں جو تلامذہ پیدا ہوئے وہ10 ہیں۔لاون، ماسرجن، میفانوس، فولویس، یہ سب سے جلیل القدر شاگرد تھا جواہل خانہ میں اس کا جانشین ہوا۔ املا نیسون، واسطاث، ساوری، غورس،سنبلقیوس، تاتالس، یہ یحییٰ لخوی کے قول کے مطابق ہے۔ دوسروں کے مطابق بقراط کے 12 شاگر د تھے اس سے کم نہ تھے زیادہ اس کی موت کے بعد ہی ہوئے ہیں یہ سب ملک روم کے اندر اس رودق (سائبان) میں بقراطی مسلک پر ایک مدت تک قائم رہے جس میں بقراط درس دیا کرتا تھا۔ بعض مقامات سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ بقراط کی ایک بیٹی مالانا ارسانامی تھی۔ اسے فن طب کے اندر کمال حاصل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دونوں بھائیوں سے بھی زیادہ ماہر تھی۔ بقراط اور جالینوس کی درمیانی مدت میں خود بقراط کے تلامذہ اور اولاد کے علاوہ قابل ذکر اطباءحسب ذیل ہیں۔( جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔