نسیم آہیر……اورآہیر پور  

  نسیم آہیر……اورآہیر پور  
  نسیم آہیر……اورآہیر پور  

  


 ملک نسیم احمد آہیر سے تعارف کا سبب  میرے کچھ کالم تھے۔وہ لاہور آتے تو ملاقات ہو جاتی۔ فون پر بات ہوتی رہتی۔ رابطوں میں بھی کبھی طویل وقفہ آجاتا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر کتاب”ناکردہ گناہوں کا قیدی“ ریوائز کررہا تھا تواتفاق سے جبار مرزا صاحب کی کتاب "جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں "علامہ عبدالستار عاصم نے تبصرے کے لیے بھجوا دی۔اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کابھی ذکر تھا۔ جبار مرزا ڈاکٹر اے کیو خان کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔
جبار مرزا کی کتاب میں نسیم آہیر صاحب کے بارے میں کہا گیا کہ وہ محسن پاکستان کے بھی محسن ہیں۔ وہ کس طرح؟ کتاب میں واقعہ رقم ہے مختصراًملاحظہ کیجئے۔" ڈاکٹر خان کے بھوپال سے آنے والے بھائی عبدالحفیظ خان المعروف اشک بھوپالی کا اوورسٹے ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب ویزا میں توسیع کے لیے وزیر داخلہ نسیم احمدآہیر سے ملے تو انہوں نے ویزا میں توسیع دینے کے بجائے اشک بھوپالی کو پاکستان کی شہریت یہ کہتے ہوئے دے دی کہ آپ تو محسنِ پاکستان ہیں "۔ یہ واقعہ پڑھتے ہوئے میں نے آہیر صاحب کو فون کیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان سے ملاقاتوں اور قربتوں کا  گلستاں کھول دیا۔
 آہیر صاحب سے میں نے ڈاکٹر خان کی گفٹ کی ہوئی کتاب ”سحر ہونے تک“ منگوائی تھی۔ محسن ملت بھی تیار ہوگئی۔ میرا یوٹیوب اور فیس بک چینل بھی ہے۔ سوچا آہیر صاحب کو خود جا کر سحر ہونے تک اور محسن ملت کتاب دے آؤں اور ان کا انٹر ویو بھی کرلوں۔اس حوالے سے گزشتہ دنوں جوہر آباد جانا ہوا۔ 


آہیر صاحب انٹرویو کے دوران کہیں یادیں بکھیرتے اور کہیں سمیٹتے رہے۔ گڑ گاؤں سے خوشاب تک کا سفر اور جہاں آہیر پور آباد کرنا سب بڑی تفصیل سے بتایا مگر یہ سفر ان کے آباء نے کیا تھا۔ یہ لوگ1864ء میں گڑگاؤں سے نکلے تھے،1857ء کی  انگریز کے خلاف بغاوت ناکام ہوگئی جس میں ان کے آباء نے بھی حصہ لیا جس کے باعث  عرصہ حیات تنگ کردیاگیا تو ہجرت کیلئے مجبور ہوئے تھے۔ راستے میں قافلہ رات کو ایک جگہ رُکا۔ تھکاوٹ سے اہل قافلہ  سو گئے۔ چوروں نے ہاتھ دکھا دیا۔ بیل کھول کر لے گئے۔آگے کارواں چلے تو کیسے چلے؟ گَڈے موجود، بیل نہیں ہیں۔ ایک بزرگ نے بتایا کہ اسے رات کو خواب میں ایک سفید پوش نے بتایا کہ بیل فلاں جگہ ڈیرے پربندھے ہیں۔ قافلے کے نوجوان اس  ڈیرے پر جا پہنچے۔ چور انہیں دیکھ کر اس لیے کھسک گئے کہ یہ تعداد میں زیادہ اور اسلحہ برداربھی تھے۔ اسی بزرگ نے خواب کے دوسرے حصے کے بارے بتایا کہ بیلوں کی نشاندہی کرنے والے  نے یہ بھی کہا کہ میں بچہ ہوں۔ میری ہڈیاں سامنے والی جھاڑی کے نیچے ہیں،  وہ ساتھ لے جاؤ، انہیں دفن نہیں کرنا جھولے میں رکھ دینا۔ یہ ہڈیاں آج بھی خوشاب میں ایک  مکان کی چھت میں لٹکے جھولے میں موجود ہیں۔سیّدسَیْد شاہ بخاری  کی کرامت یہ ہے کہ سونگھ کر پھول پھینکا جائے تو جھولے سے واپس گر جاتا ہے۔اسی گھر میں کبھی چور داخل ہوئے سامان باندھا مگر اُٹھا کر چلنے لگے تو سب اندھے ہوگئے۔سامان رکھتے تو نظر آنے لگتااور پھر انہیں مالِ مسروقہ چھوڑ کر ہی بھاگناپڑا اس دوران ایک چور کو ہلاک بھی کردیا گیا۔


نسیم آہیر ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی میں ابتدائی دنوں میں شامل ہوئے۔پی پی پی کا ساتھ دل جان سے دیا۔ جنرل ضیاء اور فوجی حکمرانی کے سخت خلاف تھے۔ جیل  بھی جانا پڑا مگر جھکے نہیں۔ مرتضیٰ بھٹو نے باپ کی پھانسی کا انتقام لینے کے لیے الذوالفقاربنائی۔ اس نے پاکستانی مسافر طیارہ اغوا کیا۔کابل لے جا کر کیپٹن رحیم کو گولی مار کر لاش باہر پھینک دی۔ اس بربریت پر دل برداشتہ ہوئے اور پی پی پی سے کنارہ کشی کر لی مگر جیل سے رہائی کی  اپیل اور درخواست نہیں کی۔1985ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ 77ء میں بھی جیتے تھے اور ایک بار پھر جیت گئے۔ یہ غیر جماعتی الیکشن تھے۔ پیپلز پارٹی نے ان کا بائیکارٹ کیا تھا۔ اسمبلی میں گئے، جونیجو اور ضیاء کی نظروں میں آئے،جنرل ضیاء الحق کو تو بھا گئے۔انہوں نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، عزت دی تو نسیم آہیر بھی ان کے گرویدہ ہو گئے۔ ایک موقع پر ان کے پاس داخلہ، مواصلات، تعلیم اور امور کشمیر سمیت پانچ وزارتیں تھیں۔ وہ آج بھی کہتے ہیں کہ  میں جونیجو کی حکومت میں فوج کا نمائندہ وزیر تھا۔


ان سے کئے گئے انٹرویو کے بیس منٹ اوسط کے سات پارٹ بنے۔ ان میں ایک جس کا عنوان۔”وزارت عظمیٰ کی پیشکش اور معذرت مگر کیوں جنرل ضیاء کا کریش سازش مقامی کردار بھی ملوث۔“ فیس بک پراب تک  تین لاکھ مرتبہ دیکھاجا چکا ہے۔ 
نسیم آہیر آج بھی جنرل ضیاء کے زبردست حامی ہیں۔ ان کو شفاف کردار کا مالک، محب وطن اور عظیم لیڈر قرار دیتے ہیں ان کا مؤقف ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام نہیں چل سکتا، جدھر طاقت ہے سب کو پتہ ہے فیصلہ ہو چکا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ پاک فوج کے حکومت میں آئینی کردار کا تعین ناگزیر ہو چکا ہے۔وہ معروضی حالات میں انتخابات کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ملک کو پیچیدگیوں اور بحرانوں سے نکالنے کا حل ان کی رائے میں اداروں،سیاست دانوں اور سٹیک ہولڈرزکا مل بیٹھنا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ   بطور وزیر داخلہ آئی جے آئی کی تشکیل میں ان کا بھی کردار تھا۔الطاف حسین آئی جے آئی کا حصہ بننے کیلئے بیتاب تھے۔میاں نواز شریف جنرل فضل حق اور قاضی حسین احمد کی شدید مخالفت پر ان کی دال نہ گل سکی۔وہ آٹھویں ترمیم کی تیاری کا بھی کریڈت لیتے ہیں۔اس ترمیم کے تحت صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے اور حکومت کے خاتمے کا اختیار دیا گیا تھا۔صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے یہ اختیارجونیجوحکومت کا خاتمہ کرکے استعمال کیا۔صدر ضیاء نے آہیر صاحب کو وزیراعظم بنانا چاہا تو یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر اعظم کو پھانسی لگا دی گئی تھی۔اب سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کو نکال کر کسی پنجابی کو وزیراعظم بنایا گیا تو نفرتیں بڑھیں گی بہتر ہے کہ کسی چھوٹے صوبے سے وزیر اعظم لے لیا جائے۔جنرل ضیاء الحق نے کسی کو بھی عبوری حکومت کا وزیر اعظم نہیں بنایا تھا۔اسلم خٹک کو سینئر وزیر بنا کر خانہ پُری کرلی۔جبکہ انتخابات کیلئے مرکزی کابینہ وہی رہی جس میں نسیم آہیر بدستور وزیر داخلہ تھے۔میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب برقرار رکھے گئے۔بقول نسیم آہیر الیکشن میں ان کو پنجاب حکومت کی طرف سے بیس ہزار جعلی ووٹ ڈلوا کر ہروا دیا گیا۔ 
نسیم آہیر عمر کے جس حصے میں ہیں ان کی صحت قابل رشک ہے۔ بیٹے علی اور بیٹی مریم  والدین کا جس طرح خیال رکھتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ معمولی سے معمولی ضرورت کاان کو علم ہوتا ہے۔مریم کا والد سے لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ کل10اکتوبر کو آہیر صاحب کی سالگرہ ہے۔ کتنویں سالگرہ ہوگی؟ مریم نے بار بار فون کر کے کہا کہ پیدائش کے سن کے بارے میں نہ بتایا جائے ابو اتنے بوڑھے نہیں ہیں جتنا بتا دیتے ہیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -