پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہرگز کسی امید افزاء دور کا عکاس نہیں۔ ایک افراتفری کا عالم ہے۔ میری عمر کے ”بزرگ شہری“ کے لئے یہ روز و شب کسی سہانے مستقبل کی نوید نہیں دیتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا ماضی اس کے حال سے کئی گنا بہتر تھا۔ اس ماضی میں ہمیں بہت سی ناکامیوں کا سامنا بھی ہوا۔ دسمبر 1971ء میں ملک آدھا رہ گیا۔اس دور کی یادیں بڑی روح فرسا ہیں۔
ہماری دو نئی پودیں گزشتہ 55برس میں پروان چڑھیں۔ ان کے لئے 1971ء کی وہ شکست جو ہمیں انڈیا کے ہاتھوں اٹھانی پڑی بڑی غم اندوز تھی۔ لیکن سبق آموز بھی تھی۔ ہم نے اس شکست سے کوئی سبق کیوں حاصل نہ کیا، اس موضوع پر میری گفتگو میجر جنرل حکیم ارشد قریشی سے رہا کرتی تھی۔ لاہور کینٹ میں میرا گھر ان کے دولت خانے سے تقریباً دو اڑھائی فرلانگ دور تھا۔ ایک دن ان کا فون آیا اور کہا: ”کچھ فرصت ہو تو آکر مل جاؤ۔ دل کی بھڑاس نکالنی ہے“۔
میں گیا تو میرے سامنے اپنی ایک کتاب رکھ دی۔ عنوان تھا:
The 1971 Indo-Pak War (A soldier`s Narrative)
پھر پوچھا کہ کیا آپ نے یہ کتاب دیکھی ہے؟ میں نے کہا کہ دیکھی بھی ہے اور پڑھی بھی ہے۔بہت اچھی تحریر ہے۔ کہنے لگے آپ انگریزی تحریروں کا ترجمہ کرتے رہتے ہیں۔ کیا اس کتاب کا ترجمہ کرو گے؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو کہا کہ اس کا ترجمہ پہلے دوحضرات سے کروا چکا ہوں۔ مجھے پسند نہیں آیا۔ دونوں مترجم سویلین تھے۔ (ان کا نام لکھنا مناسب نہیں ہوگا)
میں نے گزارش کی کہ میں اس کے پہلے باب کا ترجمہ کر دیتا ہوں۔ اگر پسند آئے تو آگے بڑھیں گے وگرنہ مجھے بھی پہلے دو مترجم حضرات میں شامل کر دیں۔
جنرل حکیم ارشد قریشی کا اگست 2008ء میں انتقال ہو گیا۔ یہ ترجمہ میں نے اوائل 2008ء میں کرکے ان کو دے دیا تھا۔ 2007ء میں یہ ایکسرسائز شروع ہوئی تھی۔ مرحوم بڑے باریک بین اور حساس آرمی آفیسر تھے۔میرے ترجمے میں کئی غلطیوں کی طرف اشارہ کیا اور جب میں نے اس کا جواب پیش کیا تو خاموشی سے اس کو قبول کیا۔ آج اس پہلے باب کا ترجمہ قارئین کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ یہ ایک مختصر سا باب ہے اس لئے اس کی دو قسطیں کر دی ہیں۔
جنرل صاحب کی شخصیت کی بہت سی جہتیں تھیں …… وہ ایک انفنٹری سولجر تھے۔ 1954ء میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ ایس ایس جی کے کمانڈر رہے۔ 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں ایک انفنٹری بٹالین (26ایف ایف) کے کمانڈنگ آفیسر تھے۔ستارۂ جرائت کااعزاز اس جنگ میں حاصل کیا۔ جنگی قیدی رہے۔ 1973ء میں واپس پاکستان آئے۔ ان کو DG پاکستان رینجرز تعینات کیا گیا۔ یہ اولین باب اسی زمانے میں لکھا گیا۔ ان کی ذات میں ایک سکہ بند لکھاری بھی چھپا ہوا تھا۔ اس تحریر کو پڑھ کر آپ محسوس کریں گے کہ گویا نسیم حجازی کا کوئی ناول پڑھ رہے ہیں (فرق زبان کا ہوگا۔ ان کو انگریزی اور اردو زبانوں پر یکساں دسترس حاصل تھی۔ میرے ترجمے کی تعریف بھی کیا کرتے تھے اور اس کی تنقید میں بھی کسی رورعائت سے کام نہیں لیتے تھے)۔
آیئے اس کتاب کے پہلے باب کا پہلا حصہ دیکھئے اور جنرل مرحوم کی ژرف نگاہی کی داد دیجئے۔ وہ لکھتے ہیں:
وہ 15 اکتوبر 1985ء کا دن تھا۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی اور نیلگوں آسمان شفاف تھا۔ صبح کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں ڈائریکٹر جنرل کی سرکاری رہائش گاہ پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم پھڑپھڑا رہا تھا۔ فضا میں ایک ارتعاش سا تھا۔ میں نے اس دن واہگہ چیک پوسٹ کو وزٹ کرنا تھا۔ چند ہی روز پہلے میں نے پاکستان رینجرز کی کمان سنبھالی تھی۔ پورچ میں وہ رینج روور (Range Rover)کہ جس میں، میں نے واہگہ پہنچنا تھا، پارک کھڑی تھی، دھلی دھلائی، صاف اور بے داغ! اس کی چھت، بونٹ اور اطراف کے تمام حصے چمکیلی دھوپ میں نہا رہے تھے اور دیکھنے والوں کی نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔ وسیع و عریض گھر کے سو سالہ پرانے درخت، پالش کی ہوئی گاڑی پر منعکس ہو کر عجیب سماں باندھ رہے تھے۔ میں نے اپنی وردی پہننے کا آج بطور خاص اہتمام کیا تھا۔ چھاتی پر لگے میرے سارے میڈل ایک نمایاں انداز میں آویزاں تھے۔ میں باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔گارڈ نے جنرل سلیوٹ پیش کیا اور ہم سرحد کی طرف روانہ ہو گئے۔
بی آر بی اور جی ٹی روڈ پر سے ہوتے ہوئے ہم بیس منٹ میں واہگہ پہنچ گئے۔ دوران سفر مجھ پر ایک گہرا تفکر طاری رہا۔ مجھے 1970ء کے تاریخ ساز واقعات ایک ایک کر کے یاد آنے لگے…… مشرقی پاکستان میں میری پوسٹنگ، عام انتخابات، سرکشی (INSURGENCY)، کاؤنٹر انسرجنسی، جنگ، غیر متوقع سرنڈر اور اس کے جلو میں آنے والی تحقیر و تذلیل…… میں انہی خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک بغیر کسی وارننگ کے رینجرز کے گارڈ روم کے سامنے سرحد سے کچھ پیچھے میری جیپ ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔ یوں لگا جیسے میں کسی خواب سے بیدار ہو گیا ہوں۔………… میں گاڑی سے باہر نکل آیا۔
میں نے جونہی زمین پر قدم رکھا، ایک تیز شور مجھے تفکر سے حقیقت کی دنیا میں لے آیا۔ بگل بج رہے تھے، کمانڈز کے بھاری بھرکم الفاظ کی گونج فضا میں بلند ہو رہی تھی اور وہ گیٹ جو سرحد کے عین اوپر دونوں طرف واقع تھے، ایک زوردار چھناکے کے ساتھ کھول دیئے گئے تھے…… میرے لئے یہ سب کچھ غیر متوقع تھا۔ میں یکدم چونک اٹھا اور حقیقت کی دنیا میں لوٹ آیا۔
سرحد کے دونوں طرف بارڈر کی محافظ فورسز(BSF) کے تقریباتی گارڈز کھڑکھڑاتی وردیوں میں ملبوس کھڑے تھے۔ یہ ایک غیر مرقومہ روائت تھی کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے نئے ڈائریکٹر جنرل اپنے پہلے دورے پر واہگہ آئیں گے تو دونوں اطراف کے گارڈز ان کو سلامی دیں گے۔
میں رینجرز کے دستے کی طرف بڑھا۔ یہ سب خصوصی طور پر منتخب کئے ہوئے لوگ تھے، چھ فٹ سے لانبے قد، چھریرے بدن، چہروں پر ایک سپاہیانہ افتخار اور ہونٹوں کے اوپر گھنی سیاہ مونچھیں ان کی وجاہت میں اضافہ کر رہی تھیں۔ کلف لگی کڑکڑاتی شلواریں اور قمیضیں اور سروں پر خوبصورتی سے باندھی گئی دلکش پگڑیاں....... ایک قابل دید منظرتھا!
میں نے پہلے اپنے رینجرز کا ریویو کیا اور پھر بھارتی سرحد کی طرف بی ایس ایف کی انسپکشن کیلئے چل دیا۔ میرے رگ و پے میں ایک سنسناہٹ سی دوڑنے لگی۔ گردش ایام مجھے بارہ برس پیچھے لے گئی۔ میں نے ایک جست میں کئی برسوں پر محیط یادوں کا سفر مکمل کر لیا تھا۔ بارہ برس پہلے میں نے اسی سرحد کے گرد و پیش کو یاد رکھا تھا۔ لیکن اس وقت آنے کا مقصد اور سمت آج کے مقصد اور سمت سے بالکل مختلف تھے۔ ماضی اور حال میں کتنا فاصلہ تھا!…… میں نے بھارتی دستے کا بغور معائنہ کیا۔ انہوں نے بھی اس انسپکشن کے لئے خاص اہتمام کر رکھا تھا۔ وہ بھی خاصے اچھے تھے لیکن اتنے رعب دار نہیں تھے جتنے کہ رینجرز۔میں نے مہمانوں کی کتاب میں اپنے ریمارکس قلمبند کئے، پھلوں کی ایک ٹوکری اور ایک لفافہ گارڈ کمانڈر کو دیا جس میں کچھ نقدی تھی (یہ سب معمولات کا حصہ تھا) اور پھر اپنی سرزمین ”پاکستان“ میں واپس آ گیا۔
یہ تجربہ بے مثال تھا۔ جذباتیت سے بھرپور، ماضی کی آغوش میں پہنچا دینے والا اور تلخ، ترش اور شیریں یادوں سے معمور!....... میں 17 اکتوبر 1973ء کو واہگہ میں پہلی بار آیا تھا۔ تب میں بھارت کی طرف سے پیدل چل کر اپنے ملک آ رہا تھا جہاں ایک جوائنٹ چیک پوسٹ پر میرے رفیقانِ کار اور دوستوں کی لمبی قطار کھڑی تھی۔ ان میں سے بعضوں کے چہرے تنے ہوئے اور افسردگی کے حامل تھے اور بعضوں کے لباس پر سیاہ رنگ کی پٹیاں بھی بندھی ہوئی تھیں۔
میں اللہ رب العزت کی شانِ بے نیازی اور اس کے کارخانہء قدرت کی نیرنگیوں پر حیران تھا۔ میرے سارے جسم میں ایک لرزشِ خفی دوڑنے لگی…… سب عزتیں اور سب ذلتیں رب کریم کی عطا ہیں۔......... و تعز من تشا و تذل من تشا!(جاری ہے)