ہمارے تعلقات پسندیدگی کی مثالی حدوں تک پہنچ گئے تھے،اس نے کافی کا پیالہ تھاما اور یک لخت پینترا بدلا،اپنی اصلیت میں آنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی

Oct 07, 2024 | 10:13 PM

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:23
جن دنوں میں مصر گیا تھا تب وہاں اخوان المسلمون کے خلاف حکومت ایک بھرپور مہم چلا رہی تھی اور وہاں کی خفیہ ایجنسیاں کسی بھی ایسے شخص کو اٹھا کر لے جاتیں جو حلئے سے کٹر اور عملی مسلمان لگتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سعودی عرب میں مقیم ہمارے باریش مصری دوست چھٹی پر قاہرہ واپس جاتے وقت اپنی لمبی داڑھیاں منڈوانا نہ بھولتے تھے۔ ایسا کرتے وقت کچھ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بھی ہوتے تھے۔ کہتے تھے کہ و ہ شرمندہ ہیں کہ سنت رسولؐ کی حفاظت نہ کر سکے، یہ ان کی مجبوری ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو قاہرہ ایئر پورٹ پر خفیہ پولیس والوں کے ہتھے چڑھ جاتے، جو ان کی ملازمت اور دوبارہ سعودی عرب میں واپسی کو تقریباً ناممکن بنا دیتے تھے اور اگر اور کچھ نہیں کرتے تو تھانے میں مسلسل پیشیاں ڈال کر کم از کم ان کی چھٹیاں تو خراب کر ہی دیتے تھے۔کچھ ایسا ہی دور تھا وہ۔
رقابتیں 
میں ناشتے کے لئے نیچے تہہ خانے میں بنے ہوئے مطعم میں جا پہنچا۔ میز پر رکھی گئی اللہ کی بے شمار نعمتوں میں سے چند ایک کو چن کر ٹرے میں رکھ لیا اور پھر متجسس نظروں سے ادھر ادھر دیکھا تاکہ کوئی معقول سا شخص نظر آ جائے جس کے ساتھ بیٹھ کر ناشتے کے علاوہ کوئی ہلکی پھلکی گپ شپ بھی کی جاسکے۔
وہاں ایک میز پر پاکستانی حلئے کا ایک سانولا سا نوجوان بیٹھا نظر آیا تو میری باچھیں کھل اٹھیں اور میں ٹرے اٹھا ئے اس کے پاس پہنچا اور ساتھ بیٹھنے کی اجازت طلب کی۔ اس نے خوش دلی سے مجھے خوش آمدید کہا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہم دونوں نے آپس میں مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا اور پھر فوراً ہی ایک دوسرے کو پسند بھی کر لیا۔ اس وقت تو لطف دوبالا ہوگیا جب اس نے قدرے میٹھے انداز مگر تھوڑی سی مختلف پنجابی زبان میں بات چیت کا آغاز کیا اور اپنا تعارف راہول کھنہ کہہ کر کروایا اور بتایا کہ وہ دہلی سے کسی سرکاری کام کے سلسلے میں آیا ہے اور اب عارضی طور پر قاہرہ کے اسی ہوٹل میں مقیم ہے۔
ذرا بے تکلفی بڑھی تو اس نے اپنے بزرگوں کے بارے میں بتایا جو تقسیم ہند کے وقت راولپنڈی کے کسی نواحی گاؤں سے نقل مکانی کرکے دہلی چلے گئے تھے اور یہ کہ اپنی موت تک اس کا دادا اس وقت کو اور اپنے گاؤں کو یاد کرکے بہت رویا کرتا تھا۔ 
وہ شین قاف کے چکر میں پڑے بغیر فرفر پنجابی بولے جا رہا تھا۔ شروع میں تو جب تک ہم اِدھر اُدھر کی ہانکتے رہے تو وہ مجھے ذرا بھی بُرا نہ لگا تھا۔ ناشتہ مکمل ہونے تک ہمارے تعلقات بہت ہی شاندار اور پسندیدگی کی مثالی حدوں تک پہنچ گئے تھے، تاہم جیسے ہی اس نے کافی کا پیالہ ہاتھ میں تھاما تو یک لخت اس نے پینترا بدلا اور پھر اسے اپنی اصلیت میں آنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی تھی۔ پہلے تو اس نے برسبیل تذکرہ ہلکی پھلکی سیاسی گفتگو کی اور اس کے بعد تو وہ سیدھا ہی پاکستان کی تخلیق تک جا پہنچا اور اس کو لے کر اگلا آدھا گھنٹہ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا کہ پاکستان کی بنیاد ہی غلط رکھی گئی تھی اور یہ کہ ہمارے بڑوں نے جو کچھ بھی کیا، اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ یہ محض جناح صاحب کی بے جا ضد تھی جس نے دونوں قوموں کو بُری طرح برباد کرکے رکھ دیا تھا۔ اس کے خیال میں اگر تقسیم کا عمل نہ ہوتا تو آج پاکستان میں شامل ہو جانے والا علاقہ اتنا پسماندہ اور پیچھے نہ رہ جاتا۔ میں بھی پوری جانفشانی اور دیانت داری سے اپنے مؤقف کا دفاع کرتا رہا۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں