بلاول کے’’ 3مشورے ‘‘،ستہ کا کھیل نئے مرحلے میں داخل، لڑائی بڑھی تو کسی کو کچھ نہیں ملے گا، تحریک انصاف بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ 

بلاول کے’’ 3مشورے ‘‘،ستہ کا کھیل نئے مرحلے میں داخل، لڑائی بڑھی تو کسی کو ...
بلاول کے’’ 3مشورے ‘‘،ستہ کا کھیل نئے مرحلے میں داخل، لڑائی بڑھی تو کسی کو کچھ نہیں ملے گا، تحریک انصاف بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں اگست 2025ء کا سیلاب تباہی، بربادی اور”سیاست“ کی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ لٹے پٹے متاثرین اپنے اجڑے اور گرے ہوئے مکانوں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔امداد کے نام پر ابھی تک صرف تسلیاں ہیں، وعدے ہیں۔ 6اکتوبر کو پنجاب کابینہ نے سیلاب متاثرین کیلئے امدادی پیکیج کی منظوری دے دی۔ 17اکتوبر سے امدادی رقوم کی تقسیم شروع ہو گی۔ جاں بحق شخص کے لواحقین کو 10 لاکھ روپے، مستقل معذوری پر 5لاکھ روپے اور معمولی معذوری پر 3لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ پکا گھر مکمل گرنے پر 10لاکھ روپے، جزوی طور پر گرنے پر 3لاکھ روپے، کچا گھر مکمل گرنے پر 5لاکھ روپے اور جزوی طور پر گرنے پر ڈیڑھ لاکھ روپے تک امداد دی جائے گی۔بڑے مویشی پر 5لاکھ روپے تک اور چھوٹے جانوروں کے مرنے پر 50ہزار روپے دیئے جائیں گے۔پنجاب حکومت نے سیلاب کے دوران 25فیصد فصل کے نقصان پر 20ہزار فی ایکڑ دینے کا بھی اصولی فیصلہ کیاہے۔ پنجاب کے 2855موضعات میں آبیانہ اور ایگریکلچر انکم ٹیکس کو معاف کر دیا گیا ہے۔
اس بار کا سیلاب بھی مدتوں یاد رہے گا۔ جنگ سے شکست خوردہ بھارت نے پانی چھوڑا۔ رہی سہی کسر غیر معمولی بارشوں نے پوری کر دی۔ دریائے راوی، ستلج، جہلم، چناب اور بیاس کا پانی پنجند پر پہنچنے سے پہلے ہی اپنا ”راستہ“ خود متعین کرتا رہا۔اسی وجہ سے پنجاب کے اکثر اضلاع میں اب بھی سیلابی پانی موجود ہیں۔لاہور ملتان موٹر ویز کو 13جگہوں پر نقصان پہنچا ۔غرضیکہ متاثرین کی بحالی کیساتھ ساتھ اتنے کام کرنے والے ہیں کہ حکومت کو فرصت نہ ملے۔ لیکن ہم وہ لوگ ہیں جو قدرتی آفات میں بھی ”سیاست“ اور ایک دوسرے کو ”نیچا“ دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
ابھی متا ثرین کو امداد کے نام پر ایک ”دھیلا“ نہیں ملالیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے سیاسی بیان بازی کا ”میلہ“ سجا لیا۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے قصور میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے کام کی تعریف کی۔ جنوبی پنجاب کا دورہ کیا تو وہاں تباہی زیادہ دیکھی۔ بلاول بھٹو نے پنجاب حکومت کو زیادہ’’محنت“ کرنے کا ”مشورہ“ دے ڈالا۔دوسرا ”مشورہ“ متاثرین کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے امداد دینے کا دیا۔ اور تیسرا اور آخری ”مشورہ“ عالمی برادری سے امداد لینے کا دے ڈالا۔یہ تینوں مشورے حکومت پنجاب کو پسند نہ آئے۔ اور پھر ”جواب“ آیا۔ پہلے کہا گیا، اپنے ”مشورے“ اپنے پاس رکھیں۔ دوسری بار کہا گیا کہ پنجاب پر انگلی اٹھائی تو ”توڑ“ دی جائے گی۔ تیسری بار صاف صاف کہہ دیا گیا، ”میرا پیسہ، میرا پانی“۔ پھر کیا تھا، سیلاب کے پانی پر آگ لگ گئی۔ یہ تمام جواب کہیں اورسے نہیں بلکہ سیدھے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی طرف سے آئے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو کے ”مشوروں“ پر ”صوبائیت کا تڑکا“ کس نے لگایا؟ اس کا فائدہ یا نقصان کسے ہو گا؟ دونوں جماعتوں کے درمیان معاملہ کیا واقعی ”انتہا“ کو پہنچ چکا ہے؟اقتدار کی راہداریوں میں ”پک“ کیا رہا ہے؟
سب کو معلوم ہے، 2024ء کے الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو ”اکٹھا“ کیا گیا۔ مشہور و معروف دائمی ”صمد بانڈ“کا استعمال کیا گیا۔ کیا ”صمد بانڈ“ کا ٹانکا اتنا ”ہلکا“ ہے کہ2 برس قبل ہی ”ہلنا“ شروع ہو گیا ہے؟
”آدھی باری تمہاری، آدھی ہماری“ یہ جملے بھی سب کو یاد ہوں گے۔ الیکشن کے بعد بڑی دیر تک یہ ”چورن“ بکتا رہا کہ مسلم لیگ (ن )اور پیپلزپارٹی کے درمیان یہی طے ہوا ہے کہ پہلے آپ آ جائیں، پھر ہم آ جائیں گے۔ کیا معاملات اب اسی طرف بڑھ رہے ہیں؟
بلاول بھٹو وزیراعظم کے امیدوار ہیں۔ اسی طرح مریم نواز بھی۔ حالیہ لڑائی میں دونوں کا کوئی نقصان بظاہر نظر نہیں آتا۔ بلاول بھٹو کو سندھ میں مسلم لیگ (ن )کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مریم نواز کو پنجاب میں پیپلزپارٹی کے ووٹ درکار ہیں۔اصل مسئلہ تو وزیراعظم شہباز شریف کو ہے کیونکہ ان کی حکومت کو پیپلزپارٹی کی بیساکھیوں کی ضرورت ہے۔ تو پھر کیا نقصان شہباز شریف کا ہے؟
وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کیلئے تحریک عدم اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے پیپلزپارٹی کو ”مشورہ“ تو دیا ہے کہ فرینڈلی فائر چھوڑیں، تحریک عدم اعتماد لائیں، تحریک انصاف غیرمشروط حمایت کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی اتنی ”مضبوط“ ہو چکی ہے کہ یہ ”رسک“اٹھائے؟
یاد دہانی کیلئے دونوں جماعتیں ”صمد بانڈ“ سے جڑی ہیں۔ اور ماضی کے تجربے تو یہی بتاتے ہیں کہ ”صمد بانڈ“ مضبوط جوڑہے۔ ملکی اور عالمی حالات وزیراعظم شہباز شریف کے حق میں ہیں۔ ان کی پرفارمنس سے ”سب“ خوش ہیں۔ کیونکہ انہیں بھی ”جوڑنا“ آتا ہے۔ اور حالیہ ”جوڑی“ کی تعریفیں تو دشمن بھی کرتا نہیں تھکتا۔
یہ ستہ کا کھیل ہے، جو نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ اس لڑائی کا فائدہ نہ بلاول بھٹو کو ہو گا اور نہ ہی مریم نواز کو۔اس موقع پر صدر آصف زرداری نے بھی ماسٹر سٹروک کھیلا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو بلایا ہے۔ ظاہر ہے، وہ بات کریں گے اور کہیں گے کہ ”انہیں“ بتاؤ۔اور زرداری صاحب کا پیغام ”صحیح جگہ“ پہنچ جائے گا۔
شیری رحمان نے جب یہ کہا کہ ہمیں Taken for granted  نہ لیں۔تب سمجھنے والے سمجھ گئے کہ پردے کے پیچھے کچھ چل رہا ہے۔ ”پھڈا“ کچھ اور ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے جس”بوجھل دل“ سے 2024ء کے الیکشن کے بعد ”سیاسی نکاح“ کیا تھا، اسے ابھی چلائے۔ کیونکہ اگر یہ شادی ٹوٹی تو دونوں کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا۔ ”چھوارے“ کوئی اور کھا جائے گا۔ رہی بات اسد قیصر کی۔ تو تحریک انصاف کا حال ”بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے“ جیسا ہے۔ ان کی ”لڑائی“ کسی اور سے ہے۔انہیں اس شادی کے ٹوٹنے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

بلاگ -