بھارت کا جنگی جنون، مردِ آہن کی سپہ تیار

بھارت کا جنگی جنون، مردِ آہن کی سپہ تیار
بھارت کا جنگی جنون، مردِ آہن کی سپہ تیار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھارت میں انتخابات سے قبل ایک بار پھر پاکستان پر حملے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بیانات جاری ہو رہے ہیں، لیکن بھارت پتہ نہیں کیوں بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے پاکستانی فوج کا مورال بہت بلند ہے۔ ازلی دشمن بھارت ابھی تک اپنے زخم چاٹ رہا ہے، لیکن اس کے سیاسی اور فوجی رہنما اپنے آپ اور اپنے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے اشتعال انگیز بیانات داغ رہے ہیں۔ بھارت کی دفاعی اور عسکری قیادت کی طرف سے اشتعال انگیز بیانات پورے جنوبی ایشیا کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

بھارت کے وزیرِ دفاع اور فوجی سربراہان کے بیانات نئی دہلی کی خطرناک ذہنیت، ہندوتوا پر مبنی تسلط، جارحیت کے نظریے اور جنگی جنون کی عکاسی کرتے ہیں۔ بھارتی جرنیل مذاکرات اور تعاون کو فروغ دینے کے بجائے مودی حکومت کے انتہا پسندانہ بیانیے کو بڑھا رہے ہیں، جنگ کے شعلے بھڑکا رہے ہیں اور علاقائی امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

یہ اشتعال انگیزیاں مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنی داخلی ناکامیوں اور عوامی تحریک سے توجہ ہٹانے کے لیے مودی حکومت کے ہتھکنڈوں کا حصہ ہیں۔ لیکن بھارت کو ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ مردِ آہن فیلڈ مارشل حافظ سید عاصم منیر کی سپہ بھارت کی کسی بھی شرانگیزی کا بھرپور جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔

جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا انحصار اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل پر ہے۔ بھارت کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور علاقائی و عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے پر جواب دہ بنانا چاہیے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں ہر عمر اور جنس کے کشمیریوں کی مسلسل گرفتاریاں قابلِ مذمت ہیں۔ بی جے پی حکومت اور اس کی افواج نے 5 اگست 2019 کے بعد کشمیریوں کو ہراساں کرنے، بلاجواز گرفتاریوں، تشدد، جائیدادوں کی ضبطی اور سرکاری ملازمین کی برطرفیوں کی مہم تیز کر رکھی ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے اپنی ہٹ دھرمی ترک کرے، ظالمانہ رویہ ختم کرے اور کشمیریوں و پاکستان کے ساتھ بامعنی اور نتیجہ خیز بات چیت شروع کرے تاکہ دیرینہ تنازعہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جا سکے۔

پاکستان کے فوجی ترجمان نے بھارت کے اعلیٰ عسکری اور سیاسی رہنماؤں کے حالیہ بیانات پر سخت ردِعمل جاری کر کے پاکستانی قوم کی امنگوں کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ یہ ردِعمل جارحانہ تکرار نہیں بلکہ اس کے تانے بانے ایک دیرینہ سرحدی تنازع، تازہ کشیدگی اور خطّے کی حساس تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔

بھارت کے وزیرِ دفاع کے اس بیانیے کے بعد کہ پاکستان سرکریک کے نزدیک فوجی انفراسٹرکچر تیار کر رہا ہے اور اس جگہ کے حوالے سے فوجی نوعیت کے اشارے دیے گئے ہیں، پاک فوج کے ترجمان نے واضح طور پر کہا کہ پڑوسی ملک کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ جارحیت کے لیے من گھڑت بہانے تراشنے کی کوشش کر رہی ہے، اور اگر کوئی مہم جوئی کی گئی تو اس کا ہولناک جواب دیا جائے گا۔ پاکستان کا یہ لہجہ محض ردِعمل نہیں بلکہ قومی دفاعی پالیسی کی جانب سے خبردار کرنے کا انداز بھی ہے۔

سرکریک کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ وہ 96 کلومیٹر طویل دلدلی علاقہ ہے جو سندھ اور گجرات کے درمیان واقع ہے اور جس پر دونوں جانب سے مختلف تاریخی اور قانونی بنیادوں پر دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اس کی حساسیت محض جغرافیہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی سمندری حدود، اقتصادی مفادات اور بار بار پیش آنے والے آبی تنازعات کی وجہ سے ہے۔ اسی لیے چھوٹی سی پیش قدمی یا بیان بازی بھی بڑے تنازعات کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔

تاریخی تناظر میں سرکریک جیسے علاقوں میں غلط فہمی سے پیدا شدہ واقعات نے خطّے کو خطرناک موڑ پر کھڑا کیا ہے، اس لیے الفاظ اور کسی اقدام میں پہل کا معاملہ انتہائی سنجیدگی کا متقاضی ہے۔

آئی ایس پی آر کے اشارے میں ایک اور نکتہ برجستہ ہے کہ رواں برس مئی میں جو حالات پیدا ہوئے، وہ دو ایٹمی قوتوں کو جنگ کے دہانے تک لے آئے تھے۔ اب اسی تاریخی تلخی کو یاد رکھتے ہوئے پاک فوج نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اس مرتبہ ردِعمل "نیو نارمل" ہوگا، یعنی فیصلہ کن اور تباہ کن۔

اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ قوم کو باور کرایا جا رہا ہے کہ دفاعی خودداری کے تقاضے اپنے عروج پر ہیں اور عسکری قیادت نے اپنی تیاری، صلاحیت اور عزم کو واضح کر دیا ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی لازم ہے کہ طاقت کا اظہار متناسب، دانشمندانہ اور عالمی قوانین کے دائرے میں رہے تاکہ جنگ کے خوفناک نتائج سے بچاؤ ممکن ہو۔

اس پس منظر میں جو سوال اہم بنتا ہے وہ یہ ہے کہ عسکری عزم اور سفارتی حکمت کو کیسے ہم آہنگ رکھا جائے؟ پاکستان کی بہادر افواج کی قابلیت، قابلِ فخر دفاعی قوت اور عوامی حوصلہ کسی سے مخفی نہیں۔ یہ وہ ستون ہیں جو کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کی ضمانت دیتے ہیں۔ تاہم ایک مضبوط عسکری ردِعمل کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پالیسی ساز طبقات مذاکرات کو مستقل حل کے طور پر اپنائیں۔

تنازعات، چاہے سرکریک جیسے پیچیدہ مسائل ہوں یا دیگر سرحدی جھگڑے، فوجی تصادم کی صورت میں جانی نقصان کرتے ہیں۔ مستقل امن اور خطّے کے عوام کی بہبود کے لیے مذاکرات، تکنیکی میٹنگز اور اعتماد سازی کے اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے عسکری طاقت کو ایک قابلِ عمل پشت پناہی سمجھا جانا چاہیے، نہ کہ مسائل کا واحد حل۔

عالمی اور علاقائی شراکت داروں کا کردار اس موقع پر کلیدی ہے۔ جب بیان بازی بڑھتی ہے تو بیرونی ثالثی، دوستی اور بین الاقوامی قانونی فورمز اس تناؤ کو قابو میں رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کی سفارتی صلاحیت کو متحرک رکھتے ہوئے اپنے موقف کو واضح، منطقی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق پیش کرنا ضروری ہے تاکہ دنیا غلط بیانیوں اور پروپیگنڈے کے بجائے حقائق کی روشنی میں واقعات کو دیکھے۔

فوجی تیاریاں اگرچہ اعتماد پیدا کرنے والی ہیں، مگر سفارتی محاذ پر شفافیت اور رابطے کشیدگی کم کرنے کے لیے مؤثر ہتھیار ثابت ہوتے ہیں۔

میڈیا، تجزیہ کاروں اور عوامی بیانیے کی ذمہ داری بھی اس دور میں بڑھ جاتی ہے۔ سنجیدہ اور متوازن تجزیہ ایسے لمحات میں امن کی حمایت کرتا ہے، جب کہ بے بنیاد اشتعال انگیزی نقصان دہ فضا کو ہوا دے سکتی ہے۔ بھارتی میڈیا آگ کو ہوا دے رہا ہے۔ عوام کو حقائق کے ساتھ ساتھ ملک کی پالیسیوں اور محاذِ خارجہ کی حکمتِ عملی سے آگاہ کرنے کا عمل معاشرتی قوت کو بڑھاتا ہے اور کسی بھی غیر ضروری کشیدگی کی روک تھام میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

اسی طرح، ریاستی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی تشریحات میں احتیاط برتیں تاکہ تصادم کے خطرناک امکانات محدود رہیں۔ ممکن ہو تو سعودی عرب، چین اور امریکہ سے اس بابت بات کی جائے۔

یہ امر واضح ہے کہ پاکستان اپنے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ اس کے محافظ پُرعزم، بہادر اور ہنرمند ہیں، مگر یہ تیاری امن کے حصول کے عزم کے ساتھ مل کر ہی اہمیت رکھتی ہے۔

عسکری قوت اس وقت معتبر اور تعریف کے قابل ہے جب وہ قوم کی سلامتی کے ساتھ ساتھ مذاکراتی حل کے لیے راستے کھولنے کا بھی ذریعہ بنے۔ الفاظ کی شدت اور قوتِ بازو دونوں قومی مفاد کے مطابق متوازن رہیں تو خطّے میں استحکام کے امکانات روشن رہیں گے۔

بھارت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جذباتی زبان اور بے ضابطہ عمل تباہ کن نتائج کی چنگاری ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا بہتر راستہ یہی ہے کہ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر آگے بڑھا جائے، تنازعات کی فہرست بنائی جائے، اپنا اپنا موقف ریکارڈ کیا جائے اور پھر متنازع امور کو طے کرنے کے لیے مکالمہ بروئے کار لایا جائے۔

دھمکیوں اور جنگ کی باتیں بھارت کو شرمندگی کے سوا کچھ نہیں دے سکیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری بھارت کے غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل کا سنجیدہ نوٹس لے۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -