ساتھی مسافر شوخیاں اور اٹھکیلیاں دیکھ کر جی ہی جی میں مسکراتے،جان لیوا مہنگائی کا رونا بھی رو لیا جاتا ،جو تنگ آ جاتے مختلف ٹولیاں بنا لیتے
مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:271
جب موسم اور حالات حاضرہ پر تبصرہ مکمل ہو جاتا ہے۔ اور جان لیوا مہنگائی کا رونا بھی رو لیا جاتا ہے تو ملکی سیاست پر بات شروع ہو جاتی ہے۔حکومت کو منہ بھر بھر کے کوسا جاتا ہے جس پر ایک دو لوگ اس کے دفاع کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں لیکن حالات کی گرما گرمی دیکھ کر پسپائی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں اور اس ساری بحث سے لاتعلقی ظاہر کرنے کے لیے بلا وجہ کھڑکی سے باہر جھانکنا شروع ہو جاتے ہیں۔
سیاست کا سلسلہ جب چل نکلے تو مرکز نگاہ ایک ہی شخص ہوتا ہے جو حکومت پر خوب گرجتا اور برستا ہے، اور پھربڑے فخریہ انداز میں چند بڑے سیاست دانوں کے ساتھ اپنی رشتہ داریوں اور دوستیوں کا تذکرہ کرکے ان کے حوالے سے کچھ ان کہی اور ان سنی کہانیاں چھیڑ دیتا ہے، جس کی تصدیق بھی صرف وہی کر سکتا ہے۔ ساتھی مسافر اس کی شوخیاں اور اٹھکیلیاں دیکھ کر جی ہی جی میں مسکراتے رہتے ہیں۔ اس کی تقریر سن کر تو یوں لگتا ہے کہ وہ حضرت گھر سے اس کی باقاعدہ مشق کرکے آئے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ سیاست تو گویا اس کے گھر کی لونڈی ہے جو ہاتھ باندھے سامنے کھڑی رہتی ہے۔وہ باتوں باتوں میں اس بات کا عندیہ بھی دے دیتا ہے کہ اگر اس کے بیان کے دوران رخنہ اندازی نہ کی گئی تو وہ سیاست کے کچھ اہم راز بھی آج سب کے سامنے افشاں کردے گا۔
اورجو اس کی باتوں سے تنگ آجاتے تو ان کی کوشش ہوتی تھی کہ سیاست کو بند کرکے کوئی دوسرا موضوع چھیڑا جائے۔ اگر وہ اس تبدیلی پر راضی ہو جاتا تو ٹھیک ورنہ وہاں بیٹھے ہوئے کچھ لوگ فلور کراسنگ کرکے یہ بھری محفل چھوڑ کر کچھ ایسے ہی دوسرے باغیوں کے ساتھ ایکا کرکے مختلف ٹولیاں بنا لیتے ہیں اور یہاں ہر کوئی اپنے اونچے عہدوں اور نہ سمیٹے جانے والے کاروبار کے بارے میں بہت لمبی لمبی ہوائیاں چھوڑتے ہیں اور پھرکن انکھیوں سے جائزہ لیتے ہیں کہ ان کی اس تازہ تازہ حاصل کی گئی امارت سے کوئی متاثر بھی ہو رہا ہے؟ جب وہ یہ سب کچھ بتا رہے ہوتے ہیں تو انھیں اس بات کا کامل یقین ہوتا ہے کہ کونسا کسی نے ان کے گھر یا اڈے پر جا کر ان کے دعوؤں کی تصدیق کرنا ہے،اس لیے وہ جو چاہیں کہہ گزریں۔ باقی لوگ بہ امر مجبوری ایسے لوگوں کی ڈینگیں سنتے رہتے ہیں۔
خواتین اپنی علیٰحدہ ہی منڈلی جما کر بیٹھ جاتی ہیں اور پھرجی بھر کے اپنے خاندانی قضیوں اور سسرالی قصوں کی پٹاری سر بازار کھول لیتی ہیں۔ اس موقع پر اکثر پکی عمر کی خواتین اپنی بہوؤں کی نافرمانیوں اور ظلم و جبر کے قصے منظر عام پر لے آتیں۔ اور جو بہو ؤیں وہاں بیٹھی ہوتی ہیں اور ان کی ساسیں ابھی تک حیات ہوتی ہیں تو وہ غیروں کے سامنے ان کے بخیئے ادھیڑ کر قدرے سکون پاتی ہیں۔
ایسے ہی ماحول میں کوئی جہاں دیدہ اور گھر بیٹھے جوان مگر نالائق بیٹوں کی مائیں بڑی دیدہ دلیری سے ساتھ سفر کرنے والی خواتین سے ان کی لڑکیوں کا ہاتھ بھی مانگ لیتی ہیں۔ بات چیت کا یہ سارا سلسلہ مصنوعی ہوتا تھا اس لیے یہاں طے ہونے والے رشتوں کی عمر نہایت مختصر ہوتی ہے ایک دن یا شاید پھراس سے بھی تھوڑا کم۔ ایک دوسرے پر واری صدقے جانے والی یہ خواتین گاڑی کے منزل پر پہنچنے کے بعد مجوزہ رشتہ تو دور کی بات، الوداعی سلام تک کرنا بھی گوارا نہیں کرتیں اور اپنے مردوں کے پیچھے چلتی ہوئی اپنی راہ لیتیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
