پاک بھارت مذاکرات سے وابستہ امیدیں

پاک بھارت مذاکرات سے وابستہ امیدیں
پاک بھارت مذاکرات سے وابستہ امیدیں

  

اس ہفتے کے اختتام پر اسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہو گی اور اس میں گزشتہ دوبرسوں کی طرح گفت و شنید کی رسم ادا کی جائے گی، باہم تعلقات کا جائزہ لیا جائے گا۔ ہمیں یاد ہے کہ گزشتہ دو ملاقاتوں میں پاک بھارت تعلقات کی کشیدگی کا تاثر بہت واضح تھا۔ پہلی اسلام آباد میں جولائی 2010ءمیں ایس ایم کرشنا اور شاہ محمود قریشی کے درمیان ہوئی، جبکہ دوسری ملاقات گزشتہ برس محترمہ حنا ربانی کھر اور ایس ایم کرشنا کے درمیان ہوئی ۔ان دونوں مواقع پر کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہ آئی اور وہ دونوں ملاقاتیں ”نشستندوگفتندوبرخاستند “ کی عملی تصویر کے سوااور کچھ نہیںتھیں۔ دونوں ممالک کے درمیان موجود مسائل کے حل کا کوئی قابل ِ عمل پہلو سامنے نہیں آیا۔

 گزشتہ برس دہلی میں مذاکرات کے موقع پر بھارت مس حنا ربانی کھر کی دلکش شخصیت اور سٹائل کو میڈیا میں اجاگر کرکے اصل مسائل سے پہلو تہی کرنے میں کامیاب ہو گیااور موصوفہ اسے اپنی کامیابی سمجھتی رہیں، اس سے پاکستان کے ذی فہم افراد کو سخت کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔ خارجہ تعلقات جیسے سنجیدہ معاملات میں بالی ووڈ کے گلیمر، ٹوئیٹر پیغامات کی بوچھاڑ اوریو ٹیوب کوریج نے اس گفتگو کے ماحول کو مکدر کر دیا جبکہ حنا ربانی کھر کے عمر رسیدہ ہم منصب یہ دیکھ کر پیچ و تاب کھاتے رہے کہ اُن کا میڈیا انہیں کس بری طرح نظر انداز کر رہا ہے۔ امید ہے کہ ہمارا میڈیا اور حنا ربانی کھر مسٹر کرشنا کے ساتھ وہ سلوک نہیں کریںگے جو بھارتی میڈیا نے اُن کے ساتھ روا رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امیدبھی کی جانی چاہئے کہ ان دونوں ممالک کے تعلقات شریک گفتگو وزرائے خارجہ کی ملبوسات کے سٹائل اور وگ کے پیچ وخم میں ہی الجھ کر نہیں رہ جائیں گے۔ اپنے مشہور ڈرامے ”ہیملٹ “ میں شیکسپیئر کہتا ہے.... ”ہوریشیو، زمین و آسمان کی گردش میں غلطاں بہت سے واقعات ہیں، جنہوں نے ابھی ظہور پذیر ہونا ہے“۔ پاک بھارت تعلقات کا تناﺅ ، جیسا کہ ہماری وزیر ِ خارجہ سمجھتی ہیں ، محض لباس اور بالوںکے انداز تک ہی محدود نہیںہے۔ آتش فشاں کے دہانے پر کچھ پھول اُگ آنے سے اس کا نکتہ ¿ کھولاﺅ یا خطرہ کم نہیں ہوجاتا۔

اگر پاک بھارت ڈائیلاگ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو جذبات بھری امید کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ دنوں ممالک کے درمیان ہونے والے تاریخی مذاکرات ،جن کو ”مربوط مذاکرات“ (Composite Dialogue) کا نام دیا گیا تھا، اُن کا مسودہ تیار کرنے میں مَیں بھی شریک تھا اور جب جون 1997ءکو اس مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی تو مَیںجانتا تھا کہ یہ محض رسمی کارروائی ہے اور اس سے کوئی عملی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ خیال یہ تھا کہ یہ مذاکرات پاک بھارت مسائل، بشمول کشمیر ، کا جائزہ لیں گے، مگر بدقسمتی سے بھارت کی ہٹ دھرمی اور علاقے میںہونے والے غیر معمولی واقعات نے ان مذاکرات کو کسی انجام تک نہ پہنچنے دیا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کی جانب سے واقعی سنجیدگی سے مسائل کے حل کی طرف بڑھنے کی کوشش کی گئی،تو کچھ سنگین قسم کے واقعات پیش آنے لگتے ہیں جو ان مذاکرات کو یرغمال بنا لیتے ہیں اور تعلقات میںپھر کشیدگی آجاتی ہے۔

 1997ءسے شروع ہونے والے پُرامن تعلقات کو پرویز مشرف صاحب کی کارگل حماقت لے ڈوبی۔ اُس مہم جوئی کو عالمی سیاسی منظر پر رکھتے ہوئے بھارت نے دنیا کو باور کرا دیا کہ پاکستان کی طرف سے کنٹرول لائن کے پار مداخلت ہو رہی ہے۔ چنانچہ اسے بہت سی جارحانہ کارروائیاں کرنے کا جواز مل گیا۔ سب سے پہلے تو اس نے کشمیری مسلمانوںکی جدوجہد کو منفی رنگ دیا اور کشمیری پنڈتوں پر، جو کئی نسلوںسے مسلمانوںکے ساتھ اس وادی میں پُرامن طور پر رہ رہے تھے، یکایک حملے شروع ہو گئے اور انہوں نے یہاں سے نقل مکانی شروع کردی۔ مارچ 2000ءمیں اس خطے میں مسٹر کلنٹن کے دورے کے موقع پر ایک گاﺅں چاٹی سنگھ پورہ (Chattisinghpura) میں سکھوں کا قتل ِ عام کیا گیا اور اس گھناﺅنی کارروائی کا الزام کشمیری مجاہدین پر لگا یا گیا ۔ ان کی معاونت کرنے پر پاکستان بھی ہدف ِ تنقید بنا۔

نائن الیون کے بعد کے ماحول میں بھارت نے نہایت مکاری کے ساتھ کشمیری مجاہدین کی جدوجہد کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرتے ہوئے اپنی طرف سے کشمیر کا باب ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔ پھر اس نے عالمی سطح پر دباﺅ بڑھاتے ہوئے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ کشمیر کا خیال دل سے نکا ل دے۔ اس کے بعد یکم اکتوبر2001ءکو مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی اور 13 دسمبر 2001ءکو دہلی میں پارلیمنٹ کی عمارت پر حملے کئے گئے۔ بغیر کسی تحقیق یا ثبوت کے ان واقعات کا الزام پاکستان پر تھوپ دیا گیا۔ جارحانہ اقدامات اٹھاتے ہوئے بھارت اپنی مسلح افواج کو لائن آف کنٹرول کے قریب لے آیا۔ صورت ِ حال اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ برصغیر میں ایٹمی تصادم ہوتا نظر آرہا تھا، تاہم امریکہ اور جی ایٹ ممالک کے سفارتی دباﺅ نے بروقت مداخلت کی اور خطے کو مہیب تباہی سے بچا لیا۔ نومبر 2003ءمیں لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا معاہدہ طے پایا ۔ اس کے ساتھ ہی اعتماد سازی کے لئے بہت سے اقدامات تجویز کئے گئے اور پاکستان کی طرف سے یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دہشت گرد تنظیم کو استعمال نہیں کرنے دے گا اور نہ ہی ان کے تعلقات سرحد پار مداخلت ( جیسا کہ اس پر الزام رہا ہے) کی بھینٹ چڑھیںگے۔

6جنوری 2004ءکو اسلام آباد سے صدرپرویز مشرف اور بھارتی وزیراعظم مسٹر واجپائی کا مشترکہ اعلامیہ، اگرچہ واشنگٹن کے دباﺅ کی وجہ سے عمل میں آیا تھا، ان دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات کو ازسرِ نو بنیاد فراہم کرتا تھا۔ اُس وقت پرویز مشرف نے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے نہ صرف سرحد پار دہشت گردی کے بھارتی الزام کو بھی تسلیم کر لیا ،بلکہ بڑی سنجیدگی سے وعدہ کیا کہ آئندہ کسی ایسی ”سرگرمی“ کا اعادہ نہیںہوگا۔ چونکہ صدر پرویز مشرف کو اقتدار میںرہنے کے لئے امریکی حمایت کی ضرورت تھی، اس لئے اُس نے یکطرفہ طور پر کشمیر پر پاکستان کے تاریخی مو¿قف میں لچک پیدا کی ۔ واشنگٹن کے اشارے پر پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے آخری برسوں میں پس ِ پردہ سفارت کاری کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل ”جس کے پاس جتنا حصہ ہے“ کی بنیاد پر نکالنے کی بھی کوشش کی۔تاہم اس لچک کا انڈیا کی طرف سے کوئی خیر مقدم دیکھنے میں نہ آیا،کیونکہ وہ نہیںچاہتا تھا کہ پاکستان جس دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے، اس سے اس کی جان چھوٹے۔ امریکہ کے مو¿ثر تعاون سے وہ پاکستان پر عالمی دباﺅ قائم رکھنا چاہتا تھا۔ اسی تناظر میں اس وقت بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیاں بھی ہوئیں اور ان کا الزام بھی پاکستان پر ہی عائد کیا گیا۔ 2006ءکے بعد سے بھارت میں جتنی بھی کارروائیاں ہوئی ہیں، ان سب کا الزام پاکستان پر لگایا گیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے مذاکراتی عمل کو ان واقعات سے منسلک کر دیا ہے۔ اس نے بڑے تواتر سے الزامات لگائے کہ جولائی 2006ءمیں ممبئی میںہونے والے ٹرین پر حملے، فروری 2007ءمیں ”سمجھوتہ ایکسپریس “ پر حملے اور پھرجولائی 2008ءمیں کابل میں بھارتی سفارت خانے پر حملے میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔

یہ وہ وقت تھا جب کشمیر کی جدوجہد ِ آزادی عالمی توجہ ، حمایت اور ہمدردی حاصل کر رہی تھی۔ مسٹر بارک اوباما نے اپنی صدارتی انتخابات کی مہم کے ابتدائی دور میں اس مسئلے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اسے افغانستان میں درپیش چیلنج کے مساوی قرار دیا۔ اتہوں نے عوامی سطح پر بیان دیا کہ وہ بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے راضی کریںگے تاکہ پاکستان پوری یک سوئی کے ساتھ افغانستان میں امریکہ کے ساتھ تعاون کرسکے۔ اُن کے ایک بیان کے مطابق.... ”افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنے والے ذرائع پاکستان میں ہیں اور انہی کی وجہ سے اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان تناﺅ ہے اور ان سب کی وجہ کشمیر کا معاملہ ہے۔ “نومبر 2008ء مسٹر اوباما کی پالیسی میں یک لخت اس وقت تبدیلی آگئی جب ممبئی حملوں کا خونی واقعہ پیش آیا۔ ان واقعات سے پہلے کشمیر کے لئے امریکہ کی تشویش نے بھارت کی نیند یں اُڑ ا دی تھیں، مگر اس حملے کے بعد اس نے ”سکون “ کا سانس لیا، کیونکہ اس کے بعد واشنگٹن اور دیگر عالمی قوتوں کی توجہ کشمیر سے ہٹ گئی۔ 26/11 کو ہونے والے ان حملوںکا اگر کسی ملک کو کوئی فائدہ ہوا تو وہ بھارت ہی ہے۔ اس نے مسٹر اوباما کی ”پاک افغان “ حکمت ِ عملی سے کشمیر کو علیحدہ کر دیا۔

جب امریکہ نے 2010ءمیں افغانستان سے افواج نکالنے کی حکمت ِ عملی بنانا شروع کردی تو یہ بات واضح تھی کہ اس ضمن میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہو گا۔ اس حقیقت کی تفہیم بھارت کو چاروناچار دوبارہ مذاکرات کی میز پرلے آئی۔ یہ ہے وہ پس ِ منظر جس میںہم ان دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں، جس کا آغاز2010ءمیںہوا، دیکھتے ہیں۔ تاہم یہ سب کاغذی کارروائی ہے، ان سے کسی مثبت پیش رفت کی توقع لگانا عبث ہے۔

اب صورت ِ حال یہ ہے کہ دنیا کی توجہ کشمیر کی بجائے دہشت گردی پر ہے۔ اس بار بھی اسلام آباد میں دونوں وزرائے خارجہ اگلی ملاقات کے مندرجات طے کرنے کے علاوہ ایک دوسرے سے شکوے شکایات بھی کریںگے ، تاہم یہ سب رسمی باتیںہیں۔ کشمیر پر وہی پرانی گفتگو کا اعادہ کیا جائے گا، اپنا اپنا مو¿قف بیان کیا جائے ۔ اس حقیقت کا ادراک طرفین کو ہے کہ اس خطے میں امریکی کارروائی کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پس ِ منظر میں چلا گیا ہے اور اب عالمی برادری کے پاس نمٹنے کے لئے کچھ اور مسائل ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ مسئلہ اپنی جگہ پر موجود ہے اور اغماض کے باوجود ایٹمی قوت کے حامل ان ہمسایہ ممالک کے درمیان باعث ِ تنازع ہے ۔ چناچہ اسلام آباد اور دہلی کے لئے ایک چیلنج ہے کہ وہ اپنے اپنے سخت گیر مو¿قف میں لچک پیداکریں اور دوسروںکی طرف دیکھنے کی بجائے وہ اپنے معاملات اپنے ہاتھ میں لیں۔ خطے میں پر امن فضا کے لئے کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر کوئی چارہ نہیںہے۔ اس حقیقت کے ادراک کے ساتھ پاکستان اور بھارت کو ماضی کی تلخیاں بھلاکر مستقبل کی طرف دیکھنا چاہئے.... شاید امید کی کوئی کرن، جو فی الحال ہویدا نہیںہے، نظر آجائے۔ ٭

مزید :

کالم -